هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6370 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنِ القَاسِمِ التَّمِيمِيِّ ، عَنْ زَهْدَمٍ الجَرْمِيِّ ، قَالَ : كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى ، وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ هَذَا الحَيِّ مِنْ جَرْمٍ إِخَاءٌ وَمَعْرُوفٌ ، قَالَ : فَقُدِّمَ طَعَامٌ ، قَالَ : وَقُدِّمَ فِي طَعَامِهِ لَحْمُ دَجَاجٍ ، قَالَ : وَفِي القَوْمِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ ، أَحْمَرُ كَأَنَّهُ مَوْلًى ، قَالَ : فَلَمْ يَدْنُ ، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى : ادْنُ ، فَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ مِنْهُ ، قَالَ : إِنِّي رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ شَيْئًا قَذِرْتُهُ ، فَحَلَفْتُ أَنْ لاَ أَطْعَمَهُ أَبَدًا ، فَقَالَ : ادْنُ أُخْبِرْكَ عَنْ ذَلِكَ ، أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ مِنَ الأَشْعَرِيِّينَ أَسْتَحْمِلُهُ ، وَهُوَ يَقْسِمُ نَعَمًا مِنْ نَعَمِ الصَّدَقَةِ - قَالَ أَيُّوبُ : أَحْسِبُهُ قَالَ : وَهُوَ غَضْبَانُ - قَالَ : وَاللَّهِ لاَ أَحْمِلُكُمْ ، وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ ، قَالَ : فَانْطَلَقْنَا ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَهْبِ إِبِلٍ ، فَقِيلَ : أَيْنَ هَؤُلاَءِ الأَشْعَرِيُّونَ فَأَتَيْنَا ، فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَى ، قَالَ : فَانْدَفَعْنَا ، فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي : أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَسْتَحْمِلُهُ ، فَحَلَفَ أَنْ لاَ يَحْمِلَنَا ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْنَا فَحَمَلَنَا ، نَسِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ ، وَاللَّهِ لَئِنْ تَغَفَّلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ لاَ نُفْلِحُ أَبَدًا ، ارْجِعُوا بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْنُذَكِّرْهُ يَمِينَهُ ، فَرَجَعْنَا فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَيْنَاكَ نَسْتَحْمِلُكَ فَحَلَفْتَ أَنْ لاَ تَحْمِلَنَا ، ثُمَّ حَمَلْتَنَا ، فَظَنَنَّا - أَوْ : فَعَرَفْنَا أَنَّكَ نَسِيتَ يَمِينَكَ - قَالَ : انْطَلِقُوا ، فَإِنَّمَا حَمَلَكُمُ اللَّهُ ، إِنِّي وَاللَّهِ - إِنْ شَاءَ اللَّهُ - لاَ أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ ، فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا ، إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَتَحَلَّلْتُهَا ، تَابَعَهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ ، وَالقَاسِمِ بْنِ عَاصِمٍ الكُلَيْبِيِّ . حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ ، وَالقَاسِمِ التَّمِيمِيِّ ، عَنْ زَهْدَمٍ ، بِهَذَا ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنِ القَاسِمِ ، عَنْ زَهْدَمٍ ، بِهَذَا
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  قال أيوب : أحسبه قال : وهو غضبان قال : والله لا أحملكم ، وما عندي ما أحملكم عليه ، قال : فانطلقنا ، فأتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بنهب إبل ، فقيل : أين هؤلاء الأشعريون فأتينا ، فأمر لنا بخمس ذود غر الذرى ، قال : فاندفعنا ، فقلت لأصحابي : أتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم نستحمله ، فحلف أن لا يحملنا ، ثم أرسل إلينا فحملنا ، نسي رسول الله صلى الله عليه وسلم يمينه ، والله لئن تغفلنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يمينه لا نفلح أبدا ، ارجعوا بنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فلنذكره يمينه ، فرجعنا فقلنا : يا رسول الله أتيناك نستحملك فحلفت أن لا تحملنا ، ثم حملتنا ، فظننا أو : فعرفنا أنك نسيت يمينك قال : انطلقوا ، فإنما حملكم الله ، إني والله إن شاء الله لا أحلف على يمين ، فأرى غيرها خيرا منها ، إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها ، تابعه حماد بن زيد ، عن أيوب ، عن أبي قلابة ، والقاسم بن عاصم الكليبي . حدثنا قتيبة ، حدثنا عبد الوهاب ، عن أيوب ، عن أبي قلابة ، والقاسم التميمي ، عن زهدم ، بهذا ، حدثنا أبو معمر ، حدثنا عبد الوارث ، حدثنا أيوب ، عن القاسم ، عن زهدم ، بهذا
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated Zahdam al-Jarmi:

We were sitting with Abu Musa Al-Ash'sari, and as there were ties of friendship and mutual favors between us and his tribe. His meal was presented before him and there was chicken meat in it. Among those who were present there was a man from Bani Taimillah having a red complexion as a non-Arab freed slave, and that man did not approach the meal. Abu Musa said to him, Come along! I have seen Allah's Messenger (ﷺ) eating of that (i.e., chicken). The man said, I have seen it (chickens) eating something I regarded as dirty, and so I have taken an oath that I shall not eat (its meat) chicken. Abu Musa said, Come along! I will inform you about it (i.e., your oath). Once we went to Allah's Messenger (ﷺ) in company with a group of Ash'airiyin, asking him for mounts while he was distributing some camels from the camels of Zakat. (Aiyub said, I think he said that the Prophet was in an angry mood at the time.) The Prophet (ﷺ) said, 'By Allah! I will not give you mounts, and I have nothing to mount you on.' After we had left, some camels of booty were brought to Allah's Apostle and he said, Where are those Ash`ariyin? Where are those Ash`ariyin? So we went (to him) and he gave us five very fat good-looking camels. We mounted them and went away, and then I said to my companions, 'We went to Allah's Messenger (ﷺ) to give us mounts, but he took an oath that he would not give us mounts, and then later on he sent for us and gave us mounts, perhaps Allah's Messenger (ﷺ) forgot his oath. By Allah, we will never be successful, for we have taken advantage of the fact that Allah's Messenger (ﷺ) forgot to fulfill his oath. So let us return to Allah's Messenger (ﷺ) to remind him of his oath.' We returned and said, 'O Allah's Messenger (ﷺ)! We came to you and asked you for mounts, but you took an oath that you would not give us mounts) but later on you gave us mounts, and we thought or considered that you have forgotten your oath.' The Prophet (ﷺ) said, 'Depart, for Allah has given you Mounts. By Allah, Allah willing, if I take an oath and then later find another thing better than that, I do what is better, and make expiation for the oath.'

(two other narrations through Zahdam as above)

":"ہم سے علی بن حجر نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے ایوب سختیانی نے ، ان سے قاسم تمیمی نے ، ان سے زہدم جرمی نے بیان کیا کہہم حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس تھے اور ہمارے قبیلہ اور اس قبیلہ جرم میں بھائی چارگی اور باہمی حسن معاملہ کی روش تھی ۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر کھانا لایا گیا اور کھانے میں مرغی کا گوشت بھی تھا ۔ راوی نے بیان کیا کہ حاضرین میں بنی تیم اللہ کا ایک شخص سرخ رنگ کا بھی تھا جیسے مولیٰ ہو ۔ بیان کیا کہ وہ شخص کھانے پر نہیں آیا تو حضرت موسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ شریک ہو جاؤ ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا گوشت کھاتے دیکھا ہے ۔ اس شخص نے کہا کہ میں نے اسے گندگی کھاتے دیکھا تھا جب سے اس سے گھن آنے لگی اور اسی وقت میں نے قسم کھا لی کہ کبھی اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا ۔ حضرت ابوموسیٰ نے کہا قریب آؤ میں تمہیں اس کے متعلق بتاؤں گا ۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں اشعریوں کی ایک جماعت کے ساتھ آئے اور میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کا جانور مانگا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت صدقہ کے اونٹوں میں سے تقسیم کر رہے تھے ۔ ایوب نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت غصہ تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم ! میں تمہیں سواری کے جانور نہیں دے سکتا اور نہ میرے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو سواری کے لئے تمہیں دے سکوں ۔ بیان کیا کہ پھر ہم واپس آ گئے ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غنیمت کے اونٹ آئے ، تو پوچھا گیا کہ اشعریوں کی جماعت کہاں ہے ۔ ہم حاضر ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پانچ عمدہ اونٹ دئیے جانے کا حکم دیا ۔ بیان کیا کہ ہم وہاں سے روانہ ہوئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواری کے لئے آئے تھے تو آپ نے قسم کھا لی تھی کہ سواری کا انتظام نہیں کر سکتے ۔ پھر ہمیں بلا بھیجا اور سواری کا جانور عنایت فرمائے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قسم بھول گئے ہوں گے ۔ واللہ ! اگر ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی قسم کے بارے میں غفلت میں رکھا تو ہم کبھی کامیاب نہیں ہوں گے ۔ چلو ہم سب آپ کے پاس واپس چلیں اور آپ کو آپ کی قسم یاد دلائیں ۔ چنانچہ ہم واپس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم پہلے آئے تھے اور آپ سے سواری کا جانور مانگا تھا تو آپ نے قسم کھا لی تھی کہ آپ اس کا انتظام نہیں کر سکتے ، ہم نے سمجھا کہ آپ اپنی قسم بھول گئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ ، تمہیں اللہ نے سواری دی ہے ، واللہ اگر اللہ نے چاہا تو میں جب بھی کوئی قسم کھالوں اور پھر دوسری چیز کو اس کے مقابل بہتر سمجھوں تو وہی کروں گا جو بہتر ہو گا اور اپنی قسم توڑ دوں گا ۔ اس روایت کی متابعت حماد بن زیدنے ایوب سے کی ، ان سے ابولابہ اور قاسم بن عاصم کلیبی نے ۔

شرح الحديث من إرشاد الساري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،    باب الْكَفَّارَةِ قَبْلَ الْحِنْثِ وَبَعْدَهُ
( باب) جواز ( الكفارة قبل الحنث وبعده) .


[ قــ :6370 ... غــ : 6721 ]
- حَدَّثَنَا عَلِىُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ الْقَاسِمِ التَّمِيمِىِّ، عَنْ زَهْدَمٍ الْجَرْمِىِّ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِى مُوسَى وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ هَذَا الْحَىِّ مِنْ جَرْمٍ إِخَاءٌ وَمَعْرُوفٌ قَالَ: فَقُدِّمَ طَعَامٌ قَالَ: وَقُدِّمَ فِى طَعَامِهِ لَحْمُ دَجَاجٍ قَالَ: وَفِى الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنْ بَنِى تَيْمِ اللَّهِ أَحْمَرُ، كَأَنَّهُ مَوْلًى قَالَ: فَلَمْ يَدْنُ فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: ادْنُ فَإِنِّى قَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَأْكُلُ مِنْهُ، قَالَ: إِنِّى رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ شَيْئًا قَذِرْتُهُ فَحَلَفْتُ أَنْ لاَ أَطْعَمَهُ أَبَدًا، فَقَالَ: ادْنُ أُخْبِرْكَ عَنْ ذَلِكَ، أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِى رَهْطٍ مِنَ الأَشْعَرِيِّينَ أَسْتَحْمِلُهُ وَهْوَ يُقْسِمُ نَعَمًا مِنْ نَعَمِ الصَّدَقَةِ، قَالَ أَيُّوبُ: أَحْسِبُهُ قَالَ وَهْوَ غَضْبَانُ، قَالَ: «وَاللَّهِ لاَ أَحْمِلُكُمْ، وَمَا عِنْدِى مَا أَحْمِلُكُمْ» قَالَ: فَانْطَلَقْنَا فَأُتِىَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بِنَهْبِ إِبِلٍ فَقِيلَ: «أَيْنَ هَؤُلاَءِ الأَشْعَرِيُّونَ أَيْنَ هَؤُلاَءِ الأَشْعَرِيُّونَ»؟ فَأَتَيْنَا فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَى قَالَ: فَانْدَفَعْنَا فَقُلْتُ لأَصْحَابِى: أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- نَسْتَحْمِلُهُ، فَحَلَفَ أَنْ لاَ يَحْمِلَنَا ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْنَا فَحَمَلَنَا نَسِىَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَمِينَهُ وَاللَّهِ لَئِنْ تَغَفَّلْنَا رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَمِينَهُ لاَ نُفْلِحُ أَبَدًا ارْجِعُوا بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَلْنُذَكِّرْهُ يَمِينَهُ، فَرَجَعْنَا فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَيْنَاكَ نَسْتَحْمِلُكَ فَحَلَفْتَ أَنْ لاَ تَحْمِلَنَا، ثُمَّ حَمَلْتَنَا فَظَنَنَّا أَوْ فَعَرَفْنَا أَنَّكَ نَسِيتَ يَمِينَكَ قَالَ: «انْطَلِقُوا فَإِنَّمَا حَمَلَكُمُ اللَّهُ إِنِّى وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لاَ أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، إِلاَّ أَتَيْتُ الَّذِى هُوَ خَيْرٌ وَتَحَلَّلْتُهَا».
تَابَعَهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِى قِلاَبَةَ وَالْقَاسِمِ بْنِ عَاصِمٍ الْكُلَيْبِىِّ.

وبه قال: ( حدّثنا علي بن بحجر) بحاء مهملة مضمومة فجيم ساكنة فراء السعدي قال: ( حدّثنا إسماعيل بن إبراهيم) المعروف بأمه علية ( عن أيوب) السختياني ( عن القاسم) بن عاصم ( التميمي عن زهدم) بفتح الزاي وسكون الهاء وفتح الدال المهملة بعدها ميم ( الجرمي) بفتح الجيم وسكون الراء أنه ( قال: كنا عند أبي موسى) عبد الله بن قيس الأشعري -رضي الله عنه- ( وكان بيننا وبين هذا الحي من جرم) بفتح الجيم وسكون الراء والحي بالفتح ولغير أبي ذر بالكسر ( إخاء) بكسر الهمزة في أوله وفتح الخاء المعجمة والمدّ أي صداقة ( ومعروف) أي إحسان ولأبي ذر عن الكشميهني: وكان بيننا وبينهم هذا الحي فزاد الضمير وقدمه على ما يعود عليه.

وقال في الكواكب، فإن قلت: الظاهر أن يقال بينه يعني أبا موسى أي لأن زهدمًا من جرم فلو كان من الأشعريين لاستقام الكلام قال: وقد تقدم على الصواب في باب: لا تحلفوا بآبائكم حيث قال كان بين هذا الحي وبين الأشعريين ودّ.
وأجاب: باحتمال أنه جعل نفسه من أتباع أبي موسى كواحد من الأشاعرة فأراد بقوله بيننا أبا موسى وأتباعه وكأنه مولى أي لم يكن من العرب الخلص.

( قال) زهدم ( فقدم طعام) بين يدي أبي موسى ولأبي ذر عن الحموي والمستملي طعامه أي طعام أبي موسى ( قال: وقدم في طعامه لحم دجاج قال: وفي القوم رجل من بني تيم الله) قبيلة معروفة من قضاعة ( أحمر كأنه مولى) قال الحافظ ابن حجر في المقدمة: لم أعرف اسمه، وقد قيل إنه زهدم الراوي ( قال: فلم يدن) أي فلم يقرب من الطعام ( فقال له أبو موسى) الأشعري: ( إذن) أقرب ( فإني قد رأيت رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يأكل منه) أي من جنس الدجاج ( قال) الرجل ( إني رأيته يأكل شيئًا) قذرًا ( قذرته) بكسر الذال المعجمة أي كرهته ( فحلفت أن لا أطعمه أبدًا فقال) أبو موسى للرجل: ( ادن) اقرب ( أخبرك) بضم الهمزة والجزم جواب الأمر ( عن ذلك) أي عن الطريق في حل اليمين ( أتينا رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- في رهط من الأشعريين أستحمله) أطلب منه ما يحملنا وأثقالنا لغزوة العسرة ( وهو يقسم نعمًا من نعم الصدقة) بفتح النون والعين المهملة فيهما.

( قال أيوب) السختياني بالسند السابق ( أحسبه) أي أحسب القاسم التيمي ( قال: وهو) أي النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ( غضبان قال) :
( والله لا أحملكم وما عندي ما أحملكم) زاد الكشميهني عليه ( قال) أبو موسى: ( فانطلقنا فأتي رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بنهب إبل) بإضافة نهب لما بعده من غنيمة، وفي رواية أبي بردة أنه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ابتاع الإبل التي حملهم عليها من سعد فيجمع باحتمال أن تكون الغنيمة لما حصلت حصل لسعد منها ذلك فاشتراه منه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وحملهم -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ( فقيل أين هؤلاء الأشعريون أين هؤلاء الأشعريون) بالتكرار مرتين في رواية أبي ذر وفي رواية أبي يزيد فلم ألبث إلا سويعة إذ سمعت بلالاً ينادي أي عبد الله بن قيس فأجبته فقال: أجب رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يدعوك ( فأتينا فأمر لنا) عليه الصلاة والسلام ( بخمس ذود) بالإضافة وفي المغازي بستة أبعرة وذكر القليل لا ينفي الكثير ( غر الذرى) بضم الذال المعجمة وفتح الراء أي الأسنمة ( قال: فاندفعنا) أي سرنا مسرعين ( فقلت لأصحابي أتينا رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- نستحمله فحلف أن لا يحملنا ثم يرسل إلينا فحملنا) بفتحات ( نسي رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يمينه والله لئن تغفلنا) بسكون اللام ( رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يمينه) أي أخذنا منه ما أعطانا في حال غفلته عن يمينه من غير أن نذكره بها ( لا نفلح أبدًا ارجعوا بنا إلى رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فلنذكره) بسكون اللام والجزم ( يمينه فرجعنا) إليه ( فقلنا: يا رسول الله أتيناك نستحملك فحلفت أن لا تحملنا ثم حملتنا فظننا أو فعرفنا) بالشك من الراوي ( أنك نسيت يمينك) ولأبي يعلى من رواية مطر عن زهدم فكرهنا أن تنسيكها فقال: والله إني ما نسيتها وأخرجه مسلم عن الشيخ الذي أخرجه عنه أبو يعلى ولم يسق منه إلا
قوله قال والله ما نسيتها ( قال: انطلقوا فإنما حملكم الله) عز وجل فيه إزالة المنة عنهم وإضافة النعمة لمالكها الأصلي ولم يرد أنه لا صنع له أصلاً فى حملهم لأنه لو أراد ذلك ما قال: ( إني والله إن شاء الله لا أحلف على يمين) أي على محلوف يمين كما مر فأطلق عليه لفظ يمين للملابسة والمراد ما شأنه أن يكون محلوفًا عليه فهو من مجاز الاستعارة ويجوز أن يكون فيه تضمين ففي النسائي إذا حلفت بيمين ورجح الأول بقوله ( فأرى غيرها خيرًا منها) لأن الضمير في غيرها لا يصح عوده على اليمين.
وأجيب: بأنه يعود على معناها المجازي للملابسة أيضًا وقال: في النهاية الحلف هو اليمين فقوله أحلف أي اعقد شيئًا بالعزم وقوله على يمين تأكيد لعقده وإعلام بأنها ليست لغوًا.
قال في شرح المشكاة: ويؤيده رواية النسائي ما على الأرض يمين احلف عليها الحديث قال: فقوله احلف عليها صفة مؤكدة لليمين قال: والمعنى لا أحلف يمينًا جزمًا لا لغو فيها ثم يظهر لي أمر آخر يكون فعله خيرًا من المضي في اليمين المذكور ( إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها) أي كفرتها.

واختلف هل كفر -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عن يمينه المذكورة كما اختلف هل كفر في قصة حلفه على شرب العسل أو على غشيان مارية فعن الحسن البصري أنه لم يكفر أصلاً لأنه مغفور له وإنما نزلت كفارة اليمين تعليمًا للأمة، وتعقب بحديث الترمذي عن عمر في قصة حلفه على العسل أو مارية فعاتبه الله وجعل له كفارة يمين، وهذا ظاهر في أنه كفر وإن كان ليس نصًّا في ردّ ما ادعاه الحسن ودعوى أن ذلك كله تشريع بعيدة، وفي تفسير القرطبي عن زيد بن أسلم أنه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- كفر بعتق رقبة، وعن مقاتل أنه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أعتق رقبة في تحريم مارية، وقد اختلف لفظ الحديث فقد لفظ الكفارة مرة وأخرها أخرى لكن بحرف الواو الذي لا يوجب ترتيبًا نعم ورد في بعض الطرق بلفظ ثم التي تقتضي الترتيب عند أبي داود والنسائي في حديث الباب، ولفظ أبي داود من طريق سعيد بن أبي عروبة عن قتادة عن الحسن فكفر عن يمينك ثم ائت الذي هو خير وفي حديث عائشة عند الحاكم بلفظ ثم، وفي حديث أم سلمة عند الطبراني نحوه ولفظه فليكفر عن يمينه ثم ليفعل الذي هو خير وإذا علم هذا فليعلم أن للكفارة ثلاث حالات.
إحداها: قبل الحلف فلا يجزئ اتفاقًا.
ثانيتها: بعد الحلف والحنث فتجزئ اتفاقًا.
ثالثتها بعد الحلف وقيل الحنث فاختلف فيها فقال مالك وسائر فقهاء الأمصار: إلا أبا حنيفة تجزئ قبله، لكن استثنى الشافعي الصيام فقال لا يجزئ إلا بعد الحنث لأن الصيام من حقوق الأبدان، ولا يجوز تقديمها قبل وقتها كالصلاة بخلاف العتق والكسوة والإطعام فإنها من حقوق الأموال فيجوز تقديمها كالزكاة واحتج للحنفية بأنها لما لم تجب صارت كالتطوّع والتطوع لا يجزئ عن الواجب وبقوله تعالى { ذلك كفارة أيمانكم إذا حلفتم} [المائدة: 89] فإن المراد إذا حلفتم فحنثتم وأجاب المخالفون بأن التقدير فإذا أردتم الحنث والخلاف كما قال القاضي عياض مبني على أن الكفارة لحل اليمين أو لتكفير مأثمها بالحنث فعند الجمهور أنها رخصة شرعها الله لحل ما عقد من اليمين فلذلك تجزئ قبل وبعد.
نعم استحب مالك والشافعي تأخيرها.

والحديث مرّ في مواضع كثيرة كالخمس والمغازي والذبائح، ويأتي إن شاء الله تعالى بعون الله في التوحيد.

( تابعه) أي تابع إسماعيل بن إبراهيم المعروف بابن علية ( حماد بن زيد) فيما وصله المؤلّف في فرض الخمس ( عن أيوب) السختياني ( عن أبي قلابة) عبد الله بن زيد الجرمي ( والقاسم بن عاصم الكليبي) بضم الكاف وفتح اللام قال: في الفتح وهذه المتابعة وقعت في الرواية عن القاسم فقط، ولكن زاد حماد ذكر أبي قلابة مضمومًا إلى القاسم قال: والبخاري لم يدرك حمادًا فالحديث من المعلقات.

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِى قِلاَبَةَ وَالْقَاسِمِ التَّمِيمِىِّ، عَنْ زَهْدَمٍ بِهَذَا.

وبه قال: ( حدّثنا قتيبة) بن سعيد قال: ( حدّثنا عبد الوهاب) بن عبد المجيد ( عن أيوب) السختياني ( عن أبي قلابة) الجرمي ( والقاسم التيمي عن زهدم بهذا) الحديث السابق.

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ زَهْدَمٍ بِهَذَا.

( حدّثنا أبو معمر) بفتح الميمين بينهما عين مهملة ساكنة قال: ( حدّثنا عبد الوارث) قال: ( حدّثنا أيوب) السختياني ( عن القاسم) التيمي ( عن زهدم بهذا) الحديث أيضًا.