هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6224 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ يَوْمَ القِيَامَةِ ، فَيَقُولُونَ : لَوِ اسْتَشْفَعْنَا عَلَى رَبِّنَا حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا ، فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ : أَنْتَ الَّذِي خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ ، وَأَمَرَ المَلاَئِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ ، فَاشْفَعْ لَنَا عِنْدَ رَبِّنَا . فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ ، وَيَقُولُ : ائْتُوا نُوحًا ، أَوَّلَ رَسُولٍ بَعَثَهُ اللَّهُ ، فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ ، ائْتُوا إِبْرَاهِيمَ الَّذِي اتَّخَذَهُ اللَّهُ خَلِيلًا ، فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ ، ائْتُوا مُوسَى الَّذِي كَلَّمَهُ اللَّهُ ، فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ ، فَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ ، ائْتُوا عِيسَى فَيَأْتُونَهُ ، فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ ، ائْتُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ ، فَيَأْتُونِي ، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي ، فَإِذَا رَأَيْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا ، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ ، ثُمَّ يُقَالُ لِي : ارْفَعْ رَأْسَكَ : سَلْ تُعْطَهْ ، وَقُلْ يُسْمَعْ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي ، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِي ، ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا ، ثُمَّ أُخْرِجُهُمْ مِنَ النَّارِ ، وَأُدْخِلُهُمُ الجَنَّةَ ، ثُمَّ أَعُودُ فَأَقَعُ سَاجِدًا مِثْلَهُ فِي الثَّالِثَةِ ، أَوِ الرَّابِعَةِ ، حَتَّى مَا بَقِيَ فِي النَّارِ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ القُرْآنُ وَكَانَ قَتَادَةُ ، يَقُولُ عِنْدَ هَذَا : أَيْ وَجَبَ عَلَيْهِ الخُلُودُ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6224 حدثنا مسدد ، حدثنا أبو عوانة ، عن قتادة ، عن أنس رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يجمع الله الناس يوم القيامة ، فيقولون : لو استشفعنا على ربنا حتى يريحنا من مكاننا ، فيأتون آدم فيقولون : أنت الذي خلقك الله بيده ، ونفخ فيك من روحه ، وأمر الملائكة فسجدوا لك ، فاشفع لنا عند ربنا . فيقول : لست هناكم ، ويذكر خطيئته ، ويقول : ائتوا نوحا ، أول رسول بعثه الله ، فيأتونه فيقول : لست هناكم ، ويذكر خطيئته ، ائتوا إبراهيم الذي اتخذه الله خليلا ، فيأتونه فيقول : لست هناكم ، ويذكر خطيئته ، ائتوا موسى الذي كلمه الله ، فيأتونه فيقول : لست هناكم ، فيذكر خطيئته ، ائتوا عيسى فيأتونه ، فيقول : لست هناكم ، ائتوا محمدا صلى الله عليه وسلم ، فقد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر ، فيأتوني ، فأستأذن على ربي ، فإذا رأيته وقعت ساجدا ، فيدعني ما شاء الله ، ثم يقال لي : ارفع رأسك : سل تعطه ، وقل يسمع ، واشفع تشفع ، فأرفع رأسي ، فأحمد ربي بتحميد يعلمني ، ثم أشفع فيحد لي حدا ، ثم أخرجهم من النار ، وأدخلهم الجنة ، ثم أعود فأقع ساجدا مثله في الثالثة ، أو الرابعة ، حتى ما بقي في النار إلا من حبسه القرآن وكان قتادة ، يقول عند هذا : أي وجب عليه الخلود
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated Anas:

Allah's Messenger (ﷺ) said, Allah will gather all the people on the Day of Resurrection and they will say, 'Let us request someone to intercede for us with our Lord so that He may relieve us from this place of ours.' Then they will go to Adam and say, 'You are the one whom Allah created with His Own Hands, and breathed in you of His soul, and ordered the angels to prostrate to you; so please intercede for us with our Lord.' Adam will reply, 'I am not fit for this undertaking, and will remember his sin, and will say, 'Go to Noah, the first Apostle sent by Allah' They will go to him and he will say, 'I am not fit for this undertaking', and will remember his sin and say, 'Go to Abraham whom Allah took as a Khalil. They will go to him (and request similarly). He will reply, 'I am not fit for this undertaking,' and will remember his sin and say, 'Go to Moses to whom Allah spoke directly.' They will go to Moses and he will say, 'I am not fit for this undertaking,' and will remember his sin and say, 'Go to Jesus.' They will go to him, and he will say, 'I am not fit for this undertaking, go to Muhammad as Allah has forgiven his past and future sins.' They will come to me and I will ask my Lord's permission, and when I see Him, I will fall down in prostration to Him, and He will leave me in that state as long as (He) Allah will, and then I will be addressed. 'Raise up your head (O Muhammad)! Ask, and your request will be granted, and say, and your saying will be listened to; intercede, and your intercession will be accepted.' Then I will raise my head, and I will glorify and praise my Lord with a saying(i.e. invocation) He will teach me, and then I will intercede, Allah will fix a limit for me (i.e., certain type of people for whom I may intercede), and I will take them out of the (Hell) Fire and let them enter Paradise. Then I will come back (to Allah) and fall in prostration, and will do the same for the third and fourth times till no-one remains in the (Hell) Fire except those whom the Qur'an has imprisoned therein. (The sub-narrator, Qatada used to say at that point, ...those upon whom eternity (in Hell) has been imposed.) (See Hadith No. 3, Vol 6).

":"ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوعوانہ نے ، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا ۔ اس وقت لوگ کہیں گے کہ اگر ہم اپنے رب کے حضور میں کسی کی شفاعت لے جائیں تو نفع بخش ثابت ہو سکتی ہے ۔ ممکن ہے ہم اپنی اس حالت سے نجات پا جائیں ۔ چنانچہ لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے آپ ہی وہ بزرگ نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ کے اندر اپنی چھپائی ہوئی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا ، آپ ہمارے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کریں ۔ وہ کہیں گے کہ میں تو اس لائق نہیں ہوں ، پھر وہ اپنی لغزش یاد کریں گے اور کہیں گے کہ نوح کے پاس جاؤ ، وہ سب سے پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بھیجا ۔ لوگ نوح کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں ۔ وہ اپنی لغزش کا ذکر کریں گے اور کہیں کہ تم ابراہیم کے پاس جاؤ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا تھا ۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن یہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں ، اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ تم لوگ موسیٰ کے پاس جاؤ جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا ۔ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں ، اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ عیسیٰ کے پاس جاؤ ۔ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے ، لیکن یہ بھی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ کیونکہ ان کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں ۔ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے ۔ اس وقت میں اپنے رب سے ( شفاعت کی ) اجازت چاہوں گا اور سجدہ میں گرجاؤں گا ۔ اللہ تعالیٰ جتنی دیر تک چاہے گا مجھے سجدہ میں رہنے دے گا ۔ پھر کہا جائے گا کہ اپنا سراٹھالو ، مانگو ، دیا جائے گا ، کہو ، سنا جائے گا ، شفاعت کرو ، شفاعت قبول کی جائے گی ۔ میں اپنے رب کی اس وقت ایسی حمد بیان کروں گا کہ جو اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا ۔ پھر شفاعت کروں گا اور میرے لیے حد مقرر کر دی جائے گی اور میں لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دوں گا اور اسی طرح سجدہ میں گرجاؤں گا ، تیسری یا چوتھی مرتبہ جہنم میں صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روکا ہے ( یعنی جن کے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا ذکر قرآن میں صراحت کے ساتھ ہے ) قتادہ رحمہ اللہ اس موقع پر کہا کرتے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن پر جہنم ہمیشہ رہنا واجب ہو گیا ہے ۔

شرح الحديث من عمدة القاري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،   
[ قــ :6224 ... غــ :6565 ]
- حدّثنا مُسَدَّدٌ حدّثنا أبُو عَوانَةَ عنْ قَتادَةَ عَنْ أنَسٍ رَضِي الله عَنهُ، قَالَ: قَالَ رسولُ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: ( يَجْمَعُ الله النّاسَ يَوْم القيامَةِ فَيَقُولُونَ: لَوِ اسْتَشْفَعْنا على رَبِّنا حَتَّى يُرِيحنَا مِنْ مَكانِنا؟ فَيَأْتونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ: أنْتَ الّذِي خَلَقَكَ الله بِيَدِهِ ونَفَخَ فِيكَ منْ رُوحِهِ وأمَرَ المَلائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ فاشْفَعْ لَنا عِنْدَ رَبِّنا، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُناكُمْ، ويَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ ويَقُولُ: ائْتُوا نُوحاً أوَّلَ رَسولِ بَعَثَهُ الله، فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُ: لَسْتُ هُناكُمْ ويَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ، ائْتُوا إبْراهِيمَ الّذِي اتَّخَذَهُ الله خَلِيلاً، فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُ: لَسْتُ هُناكُمْ، ويَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ: ائْتُو مُوسى الّذِي كَلَّمَهُ الله، فَيَأتُونَهُ فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، فَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ: ائْتُوا عِيسى فَيأتُونَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُناكُمْ، ائْتُوا مُحَمَّداً صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فقد غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأخَّرَ، فَيأتُونِي فأسْتَأْذِنُ عَلى رَبِّي فَإِذا رَأيْتُهُ وقَعْتُ ساجِداً فَيَدَعُنِي مَا شاءَ الله ثُمَّ يُقالُ لِي: ارْفَعْ رَأسَكَ سَلْ تُعْطَهْ، وقُلْ يُسْمَعْ واشْفَعْ تُشَفَّعْ، فأرْفعُ رَأسِي فأحمَدُ رَبِّي بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِي ثُمَّ أشْفَعُ فَيَحُدُّ لي حَدًّا ثُمَّ أُخْرِجهُمْ مِنَ النَّارِ وأُدْخِلُهُمُ الجَنّةَ، ثُمَّ أعُودُ فأقَعُ ساجِداً مِثْلَهُ فِي الثَّالِثَةِ أوِ الرَّابِعَةِ حتّى مَا يَبْقَى فِي النَّارِ إلاّ مَنْ حَبَسَهُ القُرْآنُ) ، وَكَانَ قَتَادَةُ يَقُولُ: عِنْدَ هاذا، أيْ وَجَبَ عَلَيْهِ الخُلُودُ.

مطابقته للتَّرْجَمَة يُمكن أَن تُؤْخَذ من قَوْله: ( ثمَّ أخرجهم من النَّار) بِالْوَجْهِ الَّذِي ذَكرْنَاهُ عِنْد التراجم الْمَاضِيَة.

وَأَبُو عوَانَة بِفَتْح الْعين الْمُهْملَة وَتَخْفِيف الْوَاو اسْمه الوضاح بن عبد الله الْيَشْكُرِي.

والْحَدِيث مضى فِي أول تَفْسِير سُورَة الْبَقَرَة وَلكنه أخرجه عَن مُسلم بن إِبْرَاهِيم عَن هِشَام عَن قَتَادَة عَن أنس، وَعَن خَليفَة عَن يزِيد بن زُرَيْع، عَن سعيد عَن قَتَادَة عَن أنس.
.

     وَقَالَ  الْكرْمَانِي: مر يَعْنِي حَدِيث الْبابُُ فِي بني إِسْرَائِيل.

قلت: الَّذِي مر فِي سُورَة بني إِسْرَائِيل عَن أبي هُرَيْرَة وَلَيْسَ عَن أنس وَهُوَ حَدِيث طَوِيل.

قَوْله: ( يجمع الله النَّاس) فِي رِوَايَة الْمُسْتَمْلِي: جمع الله، أَي: فِي العرصات.
وَفِي حَدِيث أبي هُرَيْرَة الْمَاضِي: يجمع الله النَّاس الْأَوَّلين والآخرين فِي صَعِيد وَاحِد، وَفِي رِوَايَة هِشَام وَسَعِيد وَهَمَّام: يجمع الْمُؤمنِينَ.
قَوْله: ( لَو اسْتَشْفَعْنَا) جَزَاؤُهُ مَحْذُوف أَو هُوَ لِلتَّمَنِّي فَلَا يحْتَاج إِلَى جَوَاب، وَفِي رِوَايَة مُسلم: فيلهمون بذلك، وَفِي رِوَايَة: فَيَهْتَمُّونَ بذلك، وَفِي رِوَايَة همام: حَتَّى يهتموا بذلك.
قَوْله: ( على رَبنَا فِي) رِوَايَة هِشَام وَسَعِيد: إِلَى رَبنَا، وَضمن: على، هُنَا معنى الِاسْتِعَانَة.
أَي: لَو استعنا على رَبنَا.
قَوْله: ( حَتَّى يُرِيحنَا) بِضَم الْيَاء من الإراحة بالراء والحاء الْمُهْملَة أَي: يخرجنا من الْموقف وأهواله وأحواله ويفصل بَين الْعباد.
قَوْله: ( فَيَأْتُونَ آدم عَلَيْهِ السَّلَام) وَفِي رِوَايَة شَيبَان: فَيَنْطَلِقُونَ حَتَّى يَأْتُوا آدم عَلَيْهِ السَّلَام.
قَوْله: ( عِنْد رَبنَا) فِي رِوَايَة مُسلم: عِنْد رَبك.
قَوْله: ( لست هُنَاكُم) أَي: لَيْسَ هَذِه الْمرتبَة،.

     وَقَالَ  عِيَاض قَوْله: ( لست هُنَاكُم) كِنَايَة عَن أَن مَنْزِلَته دون الْمنزلَة الْمَطْلُوبَة، قَالَه تواضعاً وإكباراً لما يسألونه، قَالَ: وَقد يكون فِيهِ إِشَارَة إِلَى أَن هَذَا الْمقَام لَيْسَ لي بل لغيري، وَوَقع فِي رِوَايَة معبد بن هِلَال: فَيَقُول: لست لَهَا، وَكَذَا فِي بَقِيَّة الْمَوَاضِع، وَفِي رِوَايَة حُذَيْفَة: لست بِصَاحِب ذَاك.
قَوْله: ( وَيذكر خطيئته) زَاد مُسلم الَّتِي أصَاب، وَزَاد همام فِي رِوَايَته أكله من الشَّجَرَة وَقد نهي عَنْهَا، وَفِي حَدِيث ابْن عَبَّاس رَضِي الله تَعَالَى عَنْهُمَا، قد أخرجت بخطيئتي فِي الْجنَّة، وَفِي رِوَايَة أبي نَضرة عَن أبي سعيد: وَإِنِّي أذنبت ذَنبا فأهبطت بِهِ إِلَى الأَرْض، وَفِي رِوَايَة ثَابت عِنْد سعيد بن مَنْصُور: إِنِّي أَخْطَأت وَأَنا فِي الفردوس وَإِن يغْفر لي الْيَوْم حسبي.
قَوْله: ( أول رَسُول بَعثه الله) قيل: آدم عَلَيْهِ السَّلَام، أول الرُّسُل لَا نوح، وَكَذَا شِيث وَإِدْرِيس وهما قبل نوح عَلَيْهِ السَّلَام.
وَأجَاب الْكرْمَانِي بِأَنَّهُ مُخْتَلف فِيهِ، وَيحْتَمل أَن يُقَال: المُرَاد هُوَ أول رَسُول أنذر قومه الْهَلَاك، أَو أول رَسُول لَهُ قوم.
انْتهى.

قلت: فِي كل من الْأَجْوِبَة الثَّلَاثَة نظر أما الأول: فَلِأَن آدم عَلَيْهِ السَّلَام، رَسُول قد أرسل إِلَى أَوْلَاد قابيل وَنزل عَلَيْهِ إِحْدَى وَعِشْرُونَ صحيفَة أملأها عَلَيْهِ جِبْرِيل عَلَيْهِ السَّلَام، وكتبها بِخَطِّهِ بالسُّرْيَانيَّة وَفرض عَلَيْهِ فِي الْيَوْم وَاللَّيْلَة خَمْسُونَ رَكْعَة وَحرم عَلَيْهِ الْميتَة وَالدَّم وَلحم الْخِنْزِير وَالْبَغي وَالظُّلم والغدر وَالْكذب وَالزِّنَا.
وَأما الثَّانِي: فَإِن آدم أَيْضا أنذر أَوْلَاده مِمَّا فِيهِ الْهَلَاك وَأوصى بذلك عِنْد مَوته.
وَأما الثَّالِث: فَلِأَن آدم أَيْضا لَهُ قوم.
وَعَن ابْن عَبَّاس: إِن آدم عَلَيْهِ السَّلَام، لم يمت حَتَّى بلغ وَلَده وَولد وَلَده أَرْبَعِينَ ألفا فَرَأى فيهم الزِّنَا وَشرب الْخمر وَالْفساد ونهاهم.
قَوْله: ( وَيذكر خطيئته) أَي: وَيذكر نوح عَلَيْهِ السَّلَام، خطيئته وَهِي دَعوته على قومه بِالْهَلَاكِ،.

     وَقَالَ  الْغَزالِيّ فِي ( كشف عُلُوم الْآخِرَة) : إِن بَين إتْيَان أهل الْموقف آدم وإتيانهم نوحًا ألف سنة، وَكَذَا بَين كل نَبِي وَنَبِي إِلَى نَبينَا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم،.

     وَقَالَ  بَعضهم: وَلم أَقف لذَلِك على أصل، وَلَقَد أَكثر فِي هَذَا الْكتاب من إِيرَاد أَحَادِيث لَا أصل لَهَا فَلَا تغتر بِشَيْء مِنْهَا.
انْتهى.

قلت: جلالة قدر الْغَزالِيّ يُنَافِي مَا ذكره، وَعدم وُقُوفه لذَلِك على أصل لَا يسْتَلْزم نفي وقُوف غَيره على أصل، وَلم يحط علم هَذَا الْقَائِل بِكُل مَا ورد وَبِكُل مَا نقل حَتَّى يَدعِي هَذِه الدَّعْوَى.
قَوْله: ( ائْتُوا إِبْرَاهِيم) إِلَى قَوْله: ( وَيذكر خطيئته) وَهِي معاريضه الثَّلَاث وَهِي قَوْله: { بل فعله كَبِيرهمْ} ( الْأَنْبِيَاء: 36) فِي كسر الْأَصْنَام وَقَوله لامْرَأَته: { أَنا أَخُوك} وَقَوله: { إِنِّي سقيم} ( الصافات: 98) .

     وَقَالَ  صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: لم يكذب إِبْرَاهِيم عَلَيْهِ السَّلَام، إلاَّ ثَلَاث كذبات كلهَا فِي الله قَوْله: { إِنِّي سقيم} وَقَوله: { بل فعله كَبِيرهمْ} ( الْأَنْبِيَاء: 36) وَقَوله لسارة ( هِيَ أُخْتِي) رَوَاهُ الإِمَام أَحْمد وَالْبَزَّار.
قَوْله: ( أئتوا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام) إِلَى قَوْله: ( خطيئته) هِيَ قتل القبطي.
قَوْله: ( فيأتونه) وَفِي رِوَايَة مُسلم: فَيَأْتُونَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام، وَلم يذكر ذَنبا، وَفِي حَدِيث أبي نَضرة عَن أبي سعيد إِنِّي عبدت من دون الله، وَفِي رِوَايَة ثَابت عِنْد سعيد بن مَنْصُور نَحوه، وَزَاد: وَإِن يغْفر لي الْيَوْم حسبي.
قَوْله: ( فَيَأْتُوني) وَفِي رِوَايَة النَّضر بن أنس عَن أَبِيه: حَدثنِي نَبِي الله، قَالَ: إِنِّي لقائم انْتظر أمتِي تعبر الصِّرَاط إِذْ جَاءَ عِيسَى فَقَالَ: يَا مُحَمَّد هَذِه الْأَنْبِيَاء قد جاءتك يسْأَلُون لتدعو الله أَن يفرق جَمِيع الْأُمَم حَيْثُ يَشَاء، لغم مَا هم فِيهِ، وَهَذَا يدل على أَن الَّذِي وصف من كَلَام أهل الْموقف كُله يَقع عِنْد نصب الصِّرَاط بعد تساقط الْكفَّار فِي النَّار.
قَوْله: ( فَأَسْتَأْذِن) وَفِي رِوَايَة هِشَام: فأنطلق حَتَّى أَسْتَأْذن، قَالَ عِيَاض: أَي فِي الشَّفَاعَة، وَفِي رِوَايَة قَتَادَة عَن أنس: آتِي بابُُ الْجنَّة فَاسْتَفْتَحَ، فَيُقَال: من هَذَا؟ فَأَقُول مُحَمَّد، فَيُقَال: مرْحَبًا بِمُحَمد.
وَفِي حَدِيث سُلَيْمَان: فآخذ بِحَلقَة الْبابُُ وَهِي من ذهب فيقرع الْبابُُ فَيُقَال: من هَذَا؟ فَيَقُول: مُحَمَّد، فَيفتح لَهُ حَتَّى يقوم بَين يَدي الله فيستأذن فِي السُّجُود فَيُؤذن لَهُ.
قَوْله: ( وَقعت سَاجِدا) نصب على الْحَال، وَفِي حَدِيث عبَادَة بن الصَّامِت رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ: فَإِذا رَأَيْت رَبِّي خَرَرْت لَهُ سَاجِدا.
قَوْله: ( فيدعني) أَي: فِي السُّجُود ( مَا شَاءَ الله) وَفِي حَدِيث أبي بكر الصّديق: فيخر سَاجِدا قد قدر جُمُعَة.
قَوْله: ( ثمَّ يَقُول لي) أَي: ثمَّ يَقُول الله لي، وَفِي رِوَايَة النَّضر بن أنس: فَأوحى الله إِلَى جِبْرِيل عَلَيْهِ السَّلَام، أَن أذهب إِلَى مُحَمَّد فَقل لَهُ: إرفع رَأسك، فعلى هَذَا معنى قَوْله: ثمَّ يَقُول لي على لِسَان جِبْرِيل عَلَيْهِ السَّلَام.
قَوْله: ( فَيحد لي حدا) أَي: يبين لي فِي كل طور من أطوار الشَّفَاعَة حدا، أَقف عِنْده فَلَا أتعداه مثل أَن يَقُول لي: شفعتك فِيمَن أخل بِالْجَمَاعَة، ثمَّ فِيمَن أخل بِالصَّلَاةِ، ثمَّ فِيمَن شرب الْخمر ثمَّ فِيمَن زنى، وعَلى هَذَا الأسلوب كَذَا حَكَاهُ الطَّيِّبِيّ.
قَوْله: ( ثمَّ أخرجهم من النَّار) قَالَ الدَّاودِيّ: كَأَن رَاوِي هَذَا الحَدِيث ركب شَيْئا على غير أَصله، وَذَلِكَ فِي أول الحَدِيث ذكر الشَّفَاعَة فِي الإراحة من كرب الْموقف، وَفِي آخِره ذكر الشَّفَاعَة فِي الْإِخْرَاج من النَّار، يَعْنِي ذَلِك إِنَّمَا يكون بعد التَّحَوُّل من الْموقف والمرور على الصِّرَاط وَسُقُوط من يسْقط فِي تِلْكَ الْحَالة فِي النَّار، ثمَّ تقع بعد ذَلِك الشَّفَاعَة فِي الْإِخْرَاج، وَهُوَ إِشْكَال قوي، وَقد أجَاب عَنهُ عِيَاض وَتَبعهُ النَّوَوِيّ وَغَيره: بِأَنَّهُ قد وَقع فِي حَدِيث حُذَيْفَة المقرون بِحَدِيث أبي هُرَيْرَة بعد قَوْله: ( فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا فَيقوم وَيُؤذن لَهُ) ، أَي: فِي الشَّفَاعَة وَيُرْسل الْأَمَانَة وَالرحم فيقومان بجنبي الصِّرَاط يَمِينا وَشمَالًا فيمر أولكم كالبرق ... الحَدِيث، قَالَ عِيَاض: فَبِهَذَا يتَّصل الْكَلَام لِأَن الشَّفَاعَة الَّتِي يجاء النَّاس إِلَيْهِ فِيهَا هِيَ الإراحة من كرب الْموقف، ثمَّ تَجِيء الشَّفَاعَة فِي الْإِخْرَاج من النَّار.
قَوْله: ( ثمَّ أَعُود) أَي: بعد إِخْرَاج من أخرجهم من النَّار وَإِدْخَال من أدخلهم الْجنَّة.
قَوْله: ( مثله) أَي: مثل الأول.
قَوْله: ( فِي الثَّالِثَة) أَي: فِي الْمرة الثَّالِثَة.
قَوْله: ( أَو الرَّابِعَة) شكّ من الرَّاوِي، وَحَاصِل الْكَلَام أَن الْمرة الأولى الشَّفَاعَة لإراحة أهل الْموقف، وَالثَّانيَِة لإخراجهم من النَّار، وَالثَّالِثَة يَقُول فِيهَا: يَا رب مَا بَقِي إلاَّ من حَبسه الْقُرْآن، وَهَكَذَا هُوَ فِي أَكثر الرِّوَايَات، وَلَكِن وَقع عِنْد أَحْمد من رِوَايَة سعيد بن أبي عرُوبَة عَن قَتَادَة: ثمَّ أَعُود الرَّابِعَة فَأَقُول: يَا رب مَا بَقِي إلاَّ من حَبسه الْقُرْآن، وَفَسرهُ قَتَادَة بِأَنَّهُ من وَجب عَلَيْهِ الخلود يَعْنِي: من أخبر الْقُرْآن بِأَنَّهُ يخلد فِي النَّار.