هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6606 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الحَلْوَاءَ ، وَيُحِبُّ العَسَلَ ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى العَصْرَ أَجَازَ عَلَى نِسَائِهِ فَيَدْنُو مِنْهُنَّ ، فَدَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ ، فَاحْتَبَسَ عِنْدَهَا أَكْثَرَ مِمَّا كَانَ يَحْتَبِسُ ، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ ، فَقَالَ لِي : أَهْدَتْ لَهَا امْرَأَةٌ مِنْ قَوْمِهَا عُكَّةَ عَسَلٍ ، فَسَقَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ شَرْبَةً ، فَقُلْتُ : أَمَا وَاللَّهِ لَنَحْتَالَنَّ لَهُ ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَوْدَةَ ، قُلْتُ : إِذَا دَخَلَ عَلَيْكِ فَإِنَّهُ سَيَدْنُو مِنْكِ ، فَقُولِي لَهُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَكَلْتَ مَغَافِيرَ ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ : لاَ ، فَقُولِي لَهُ : مَا هَذِهِ الرِّيحُ ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أَنْ يُوجَدَ مِنْهُ الرِّيحُ ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ : سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ ، فَقُولِي لَهُ : جَرَسَتْ نَحْلُهُ العُرْفُطَ ، وَسَأَقُولُ ذَلِكِ : وَقُولِيهِ أَنْتِ يَا صَفِيَّةُ ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى سَوْدَةَ ، قُلْتُ : تَقُولُ سَوْدَةُ : وَالَّذِي لاَ إِلَهَ إِلَّا هُوَ ، لَقَدْ كِدْتُ أَنْ أُبَادِرَهُ بِالَّذِي قُلْتِ لِي وَإِنَّهُ لَعَلَى البَابِ ، فَرَقًا مِنْكِ ، فَلَمَّا دَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَكَلْتَ مَغَافِيرَ ؟ قَالَ : لاَ قُلْتُ : فَمَا هَذِهِ الرِّيحُ ؟ قَالَ : سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ قُلْتُ : جَرَسَتْ نَحْلُهُ العُرْفُطَ ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيَّ قُلْتُ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ ، وَدَخَلَ عَلَى صَفِيَّةَ فَقَالَتْ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ قَالَتْ لَهُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَلاَ أَسْقِيكَ مِنْهُ ؟ قَالَ : لاَ حَاجَةَ لِي بِهِ قَالَتْ : تَقُولُ سَوْدَةُ : سُبْحَانَ اللَّهِ ، لَقَدْ حَرَمْنَاهُ ، قَالَتْ : قُلْتُ لَهَا : اسْكُتِي
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6606 حدثنا عبيد بن إسماعيل ، حدثنا أبو أسامة ، عن هشام ، عن أبيه ، عن عائشة ، قالت : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب الحلواء ، ويحب العسل ، وكان إذا صلى العصر أجاز على نسائه فيدنو منهن ، فدخل على حفصة ، فاحتبس عندها أكثر مما كان يحتبس ، فسألت عن ذلك ، فقال لي : أهدت لها امرأة من قومها عكة عسل ، فسقت رسول الله صلى الله عليه وسلم منه شربة ، فقلت : أما والله لنحتالن له ، فذكرت ذلك لسودة ، قلت : إذا دخل عليك فإنه سيدنو منك ، فقولي له : يا رسول الله ، أكلت مغافير ، فإنه سيقول : لا ، فقولي له : ما هذه الريح ، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يشتد عليه أن يوجد منه الريح ، فإنه سيقول : سقتني حفصة شربة عسل ، فقولي له : جرست نحله العرفط ، وسأقول ذلك : وقوليه أنت يا صفية ، فلما دخل على سودة ، قلت : تقول سودة : والذي لا إله إلا هو ، لقد كدت أن أبادره بالذي قلت لي وإنه لعلى الباب ، فرقا منك ، فلما دنا رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت : يا رسول الله ، أكلت مغافير ؟ قال : لا قلت : فما هذه الريح ؟ قال : سقتني حفصة شربة عسل قلت : جرست نحله العرفط ، فلما دخل علي قلت له مثل ذلك ، ودخل على صفية فقالت له مثل ذلك ، فلما دخل على حفصة قالت له : يا رسول الله ، ألا أسقيك منه ؟ قال : لا حاجة لي به قالت : تقول سودة : سبحان الله ، لقد حرمناه ، قالت : قلت لها : اسكتي
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated `Aisha:

Allah's Messenger (ﷺ) used to like sweets and also used to like honey, and whenever he finished the `Asr prayer, he used to visit his wives and stay with them. Once he visited Hafsa and remained with her longer than the period he used to stay, so I enquired about it. It was said to me, A woman from her tribe gave her a leather skin containing honey as a present, and she gave some of it to Allah's Messenger (ﷺ) to drink. I said, By Allah, we will play a trick on him. So I mentioned the story to Sauda (the wife of the Prophet) and said to her, When he enters upon you, he will come near to you whereupon you should say to him, 'O Allah's Messenger (ﷺ)! Have you eaten Maghafir?' He will say, 'No.' Then you say to him, 'What is this bad smell? ' And it would be very hard on Allah's Messenger (ﷺ) that a bad smell should be found on his body. He will say, 'Hafsa has given me a drink of honey.' Then you should say to him, 'Its bees must have sucked from the Al-`Urfut (a foul smelling flower).' I too, will tell him the same. And you, O Saifya, say the same. So when the Prophet (ﷺ) entered upon Sauda (the following happened). Sauda said, By Him except Whom none has the right to be worshipped, I was about to say to him what you had told me to say while he was still at the gate because of fear from you. But when Allah 's Apostle came near to me, I said to him, 'O Allah's Messenger (ﷺ)! Have you eaten Maghafir?' He replied, 'No.' I said, 'What about this smell?' He said, 'Hafsa has given me a drink of honey.' I said, 'Its bees must have sucked Al-`Urfut.' When he entered upon me, I told him the same as that, and when he entered upon Safiya, she too told him the same. So when he visited Hafsa again, she said to him, O Allah's Messenger (ﷺ)! Shall I give you a drink of it (honey)? He said, I have no desire for it. Sauda said, Subhan Allah! We have deprived him of it (honey). I said to her, Be quiet!

":"ہم سے عبیدبن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے ، ان سے ہشام نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حلوہ ( یعنی میٹھی چیز ) اور شہد پسند کرتے تھے اور عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنی ازواج سے ( ان میں سے کسی کے حجرہ میں جانے کے لیے ) اجازت لیتے تھے اور ان کے پاس جاتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئے اور ان کے یہاں اس سے زیادہ دیر تک ٹھہرے رہے جتنی دیر تک ٹھہرنے کا آپ کا معمول تھا ۔ میں نے اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ان کی قوم کی ایک خاتون نے شہد کی ایک کپی انہیں ہدیہ کی تھی اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا شربت پلایا تھا ۔ میں نے اس پر کہا کہ اب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک حیلہ کروں گی چنانچہ میں نے اس کا ذکر سودہ رضی اللہ عنہا سے کیا اور کہا جب آنحضرت آپ کے یہاں آئیں تو آپ کے قریب بھی آئیں گے اس وقت تم آپ سے کہنا یا رسول اللہ ! شاید آپ نے مغافیر کھایا ہے ؟ اس پر آپ جواب دیں گے کہ نہیں ۔ تم کہنا کہ پھر یہ بو کس چیز کی ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت ناگوار تھی کہ آپ کے جسم کے کسی حصہ سے بو آئے ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب یہ دیں گے کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا تھا ۔ اس پر کہنا کہ شہد کی مکھیوں نے غرفط کا رس چوسا ہو گا اور میں بھی آنحضرت سے یہی بات کہوں گی اور صفیہ تم بھی آنحضرت سے یہ کہنا چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سودہ کے یہاں تشریف لے گئے تو ان کا بیان ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ تمہارے خوف سے قریب تھا کہ میں اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات جلدی میں کہہ دیتی جبکہ آپ دروازے ہی پر تھے ۔ آخر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قریب آئے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے مغافیر کھایا ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ۔ میں نے کہا پھر بو کیسی ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا ہے میں نے کہا اس شہد کی مکھیوں نے غرفط کا رس چوسا ہو گا اور صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جب آپ تشریف لے گئے تو انہوں نے بھی یہی کہا ۔ اس کے بعد جب حفصہ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم گئے تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ شہد میں پھر آپ کو پلاؤں ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ اس کی ضرورت نہیں ۔ بیان کیا ہے کہ اس پر سودہ رضی اللہ عنہا بولیں ۔ سبحان اللہ یہ ہم نے کیا کیا گویا شہد آپ پر حرام کر دیا ۔ میں نے کہا چپ رہو ۔

شاهد كل الشروح المتوفرة للحديث

هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  [6972] كَانَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ وَكَانَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ دَخَلَ عَلَى نِسَائِهِ فَيَدْنُو مِنْهُنَّ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ وَقَدْ تَقَدَّمَ فِي كِتَابِ الطَّلَاق مشروحا وَذكر مَعَه حَدِيث عَائِشَة من طَرِيقُ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْهَا وَفِيهِ أَنَّ الَّتِي سَقَتْهُ الْعَسَلَ زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ وَاسْتُشْكِلَتْ قِصَّةُ حَفْصَةَ بِأَنَّ فِي الْآيَةِ مَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ نُزُولَ ذَلِكَ كَانَ فِي حَقِّ عَائِشَةَ وَحَفْصَةَ فَقَطْ لِتَكْرَارِ التَّثْنِيَةِ فِي قَوْلِهِ أَن تَتُوبَا وَإِن تظاهرا وَهُنَا جَاءَ فِيهِ ذِكْرُ ثَلَاثَةٍ وَجَمَعَ الْكِرْمَانِيُّ بَيْنَهُمَا بِأَنَّ قِصَّةَ حَفْصَةَ سَابِقَةٌ وَلَيْسَ فِيهَا سَبَبُ نُزُولٍ وَلَا تَثْنِيَةٌ بِخِلَافِ قِصَّةِ زَيْنَبَ فَفِيهَا تَوَاطَأْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ وَفِيهَا التَّصْرِيحُ بِأَنَّ الْآيَة نزلت فِي ذَلِك وَحكى بن التِّينِ عَنِ الدَّاوُدِيِّ أَنَّ قَوْلَهُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِنَّ الَّتِي سَقَتْهُ الْعَسَلَ حَفْصَةُ غَلَطٌ لِأَنَّ صَفِيَّةَ هِيَ الَّتِي تَظَاهَرَتْ مَعَ عَائِشَةَ فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ وَإِنَّمَا شَرِبَهُ عِنْدَ صَفِيَّةَ وَقِيلَ عِنْدَ زَيْنَبَ كَذَا قَالَ وَجَزْمُهُ بِأَنَّ الرِّوَايَةَ الَّتِي فِيهَا حَفْصَةُ غَلَطٌ مَرْدُودٌ فَإِنَّهَا لَيْسَتْ غَلَطًا بَلْ هِيَ قِصَّةٌ أُخْرَى وَالْحَدِيثُ الصَّحِيحُ لَا يُرَدُّ بِمِثْلِ هَذَا وَيَكْفِي فِي الرَّدِّ عَلَيْهِ أَنَّهُ جَعَلَ قِصَّةَ زَيْنَبَ لِصَفِيَّةَ وَأَشَارَ إِلَى أَنَّ نِسْبَةَ ذَلِكَ لِزَيْنَبَ ضَعِيفٌ وَالْوَاقِعُ أَنَّهُ صَحِيحٌ وَكِلَاهُمَا مُتَّفَقٌ عَلَى صِحَّتِهِ وَلِلدَّاوُدِيِّ عَجَائِبُ فِي شَرْحِهِ ذَكَرْتُ مِنْهَا شَيْئًا كَثِيرًا وَمِنْهَا فِي هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ قَالَ فِي قَوْلِهِ جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ جَرَسَتْ مَعْنَاهُ تَغَيَّرَ طَعْمُ الْعَسَلِ لِشَيْءٍ يَأْكُلُهُالنَّحْلُ وَالْعُرْفُطُ مَوْضِعٌ وَتَفْسِيرُ الْجَرْسِ بِالتَّغَيُّرِ وَالْعُرْفُطِ بِالْمَوْضِعِ مُخَالِفٌ لِلْجَمِيعِ وَقَدْ تَقَدَّمَ بَيَانُهُ مَعَ شَرْحِ الْحَدِيثِ وَقَولُهُ فِي هَذِهِ الرِّوَايَةِ أَجَازَ ثَبَتَ هَكَذَا لَهُمْ وَهُوَ صَحِيحٌ يُقَالُ أَجَزْتُ الْوَادِيَ إِذَا قَطَعْتُهُ وَالْمُرَادُ أَنَّهُ يَقْطَعُ الْمَسَافَةَ الَّتِي بَيْنَ كُلِّ وَاحِدَةٍ وَالَّتِي تَلِيهَا وَوَقَعَ فِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ وَالْإِسْمَاعِيلِيِّ هُنَا جَازَ وَحَكَى بن التِّينِ جَازَ عَلَى نِسَائِهِ أَيْ مَرَّ أَوْ سَلَكَ وَوَقَعَ فِي رِوَايَةِ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ الْمَاضِيَةِ فِي الطَّلَاقِ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ دَخَلَ وَقَولُهُ فِيهَا أُبَادِئُهُ بِهَمْزَةٍ وَمُوَحَّدَةٍ وَفِيهِ اخْتِلَافٌ ذَكَرْتُهُ فِيمَا مَضَى وَقَولُهُ فَرَقًا بِفَتْحِ الرَّاءِ أَي خوفًا.

     وَقَالَ  بن الْمُنِيرِ إِنَّمَا سَاغَ لَهُنَّ أَنْ يَقُلْنَ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ لِأَنَّهُنَّ أَوْرَدْنَهُ عَلَى طَرِيقِ الِاسْتِفْهَامِ بِدَلِيلِ جَوَابِهِ بِقَوْلِهِ لَا وَأَرَدْنَ بِذَلِكَ التَّعْرِيضَ لَا صَرِيحَ الْكَذِبِ فَهَذَا وَجْهُ الِاحْتِيَالِ الَّتِي قَالَتْ عَائِشَة لتحتالن لَهُ وَلَوْ كَانَ كَذِبًا مَحْضًا لَمْ يُسَمَّ حِيلَة إِذْ لَا شُبْهَة لصَاحبه ( قَولُهُ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الِاحْتِيَالِ فِي الْفِرَارِ مِنَ الطَّاعُونِ) ذَكَرَ فِيهِ حَدِيثَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ أَنَّ عُمَرَ خَرَجَ إِلَى الشَّامِ فَذَكَرَ حَدِيثَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ فِي النَّهْيِ عَنِ الْخُرُوجِ مِنَ الْبَلَدِ الَّذِي يَقَعُ بِهِ الطَّاعُونُ وَعَنِ الْقُدُومِ عَلَى الْبَلَدِ الَّتِي وَقَعَ بِهَا وَحَدِيثُ سَالِمِ بن عبد الله يَعْنِي بن عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ إِنَّمَا انْصَرَفَ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَحَدِيثِ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّهُ سَمِعَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ يُحَدِّثُ سَعْدًا بِمَعْنَى حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَفِيهِ زِيَادَةٌ فِي أَوَّلِهِ وَقَدْ تَقَدَّمَ كُلُّ ذَلِكَ مَشْرُوحًا فِي كِتَابِ الطِّبِّ وَوَقَعَ فِي حَدِيثِ أُسَامَةَ هُنَا الْوَجَعُ بَدَلَ الطَّاعُونِ وَقَولُهُ

هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  ( قَولُهُ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنِ احْتِيَالِ الْمَرْأَةِ مَعَ الزَّوْجِ وَالضَّرَائِرِ وَمَا نَزَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ)
قَالَ بن التِّينِ مَعْنَى التَّرْجَمَةِ ظَاهِرٌ إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يُبَيِّنْ مَا نَزَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ وَهُوَ قَوْلِهِ تَعَالَى لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَك.

.

قُلْتُ وَقَدْ ذَكَرْتُ فِي التَّفْسِيرِ الْخِلَافَ فِي الْمُرَادِ بِذَلِكَ وَأَنَّ الَّذِي فِي الصَّحِيحِ هُوَ الْعَسَل وهوالذي وَقَعَ فِي قِصَّةِ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَقِيلَ فِي تَحْرِيمِ مَارِيَةَ وَأَنَّ الصَّحِيحَ أَنَّهُ نَزَلَ فِي كِلَا الْأَمْرَيْنِ ثُمَّ وَجَدْتُ فِي الطَّبَرَانِيِّ وَتَفْسِير بن مَرْدَوَيْهِ مِنْ طَرِيقِ أَبِي عَامِرٍ الْخَزَّازِ عَنِ بن أبي مليكَة عَن بن عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْرَبُ عَسَلًا عِنْدَ سَوْدَةَ فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ الْبَابِ وَفِي آخِرِهِ فَأُنْزِلَتْ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ وَرُوَاتُهُ مُوَثَّقُونَ إِلَّا أَنَّ أَبَا عَامِرٍ وَهِمَ فِي قَوْله سَوْدَة وَذكر فِيهِ حَدِيثُ عَائِشَةَ

[ قــ :6606 ... غــ :6972] كَانَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ وَكَانَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ دَخَلَ عَلَى نِسَائِهِ فَيَدْنُو مِنْهُنَّ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ وَقَدْ تَقَدَّمَ فِي كِتَابِ الطَّلَاق مشروحا وَذكر مَعَه حَدِيث عَائِشَة من طَرِيقُ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْهَا وَفِيهِ أَنَّ الَّتِي سَقَتْهُ الْعَسَلَ زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ وَاسْتُشْكِلَتْ قِصَّةُ حَفْصَةَ بِأَنَّ فِي الْآيَةِ مَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ نُزُولَ ذَلِكَ كَانَ فِي حَقِّ عَائِشَةَ وَحَفْصَةَ فَقَطْ لِتَكْرَارِ التَّثْنِيَةِ فِي قَوْلِهِ أَن تَتُوبَا وَإِن تظاهرا وَهُنَا جَاءَ فِيهِ ذِكْرُ ثَلَاثَةٍ وَجَمَعَ الْكِرْمَانِيُّ بَيْنَهُمَا بِأَنَّ قِصَّةَ حَفْصَةَ سَابِقَةٌ وَلَيْسَ فِيهَا سَبَبُ نُزُولٍ وَلَا تَثْنِيَةٌ بِخِلَافِ قِصَّةِ زَيْنَبَ فَفِيهَا تَوَاطَأْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ وَفِيهَا التَّصْرِيحُ بِأَنَّ الْآيَة نزلت فِي ذَلِك وَحكى بن التِّينِ عَنِ الدَّاوُدِيِّ أَنَّ قَوْلَهُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِنَّ الَّتِي سَقَتْهُ الْعَسَلَ حَفْصَةُ غَلَطٌ لِأَنَّ صَفِيَّةَ هِيَ الَّتِي تَظَاهَرَتْ مَعَ عَائِشَةَ فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ وَإِنَّمَا شَرِبَهُ عِنْدَ صَفِيَّةَ وَقِيلَ عِنْدَ زَيْنَبَ كَذَا قَالَ وَجَزْمُهُ بِأَنَّ الرِّوَايَةَ الَّتِي فِيهَا حَفْصَةُ غَلَطٌ مَرْدُودٌ فَإِنَّهَا لَيْسَتْ غَلَطًا بَلْ هِيَ قِصَّةٌ أُخْرَى وَالْحَدِيثُ الصَّحِيحُ لَا يُرَدُّ بِمِثْلِ هَذَا وَيَكْفِي فِي الرَّدِّ عَلَيْهِ أَنَّهُ جَعَلَ قِصَّةَ زَيْنَبَ لِصَفِيَّةَ وَأَشَارَ إِلَى أَنَّ نِسْبَةَ ذَلِكَ لِزَيْنَبَ ضَعِيفٌ وَالْوَاقِعُ أَنَّهُ صَحِيحٌ وَكِلَاهُمَا مُتَّفَقٌ عَلَى صِحَّتِهِ وَلِلدَّاوُدِيِّ عَجَائِبُ فِي شَرْحِهِ ذَكَرْتُ مِنْهَا شَيْئًا كَثِيرًا وَمِنْهَا فِي هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ قَالَ فِي قَوْلِهِ جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ جَرَسَتْ مَعْنَاهُ تَغَيَّرَ طَعْمُ الْعَسَلِ لِشَيْءٍ يَأْكُلُهُ النَّحْلُ وَالْعُرْفُطُ مَوْضِعٌ وَتَفْسِيرُ الْجَرْسِ بِالتَّغَيُّرِ وَالْعُرْفُطِ بِالْمَوْضِعِ مُخَالِفٌ لِلْجَمِيعِ وَقَدْ تَقَدَّمَ بَيَانُهُ مَعَ شَرْحِ الْحَدِيثِ وَقَولُهُ فِي هَذِهِ الرِّوَايَةِ أَجَازَ ثَبَتَ هَكَذَا لَهُمْ وَهُوَ صَحِيحٌ يُقَالُ أَجَزْتُ الْوَادِيَ إِذَا قَطَعْتُهُ وَالْمُرَادُ أَنَّهُ يَقْطَعُ الْمَسَافَةَ الَّتِي بَيْنَ كُلِّ وَاحِدَةٍ وَالَّتِي تَلِيهَا وَوَقَعَ فِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ وَالْإِسْمَاعِيلِيِّ هُنَا جَازَ وَحَكَى بن التِّينِ جَازَ عَلَى نِسَائِهِ أَيْ مَرَّ أَوْ سَلَكَ وَوَقَعَ فِي رِوَايَةِ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ الْمَاضِيَةِ فِي الطَّلَاقِ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ دَخَلَ وَقَولُهُ فِيهَا أُبَادِئُهُ بِهَمْزَةٍ وَمُوَحَّدَةٍ وَفِيهِ اخْتِلَافٌ ذَكَرْتُهُ فِيمَا مَضَى وَقَولُهُ فَرَقًا بِفَتْحِ الرَّاءِ أَي خوفًا.

     وَقَالَ  بن الْمُنِيرِ إِنَّمَا سَاغَ لَهُنَّ أَنْ يَقُلْنَ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ لِأَنَّهُنَّ أَوْرَدْنَهُ عَلَى طَرِيقِ الِاسْتِفْهَامِ بِدَلِيلِ جَوَابِهِ بِقَوْلِهِ لَا وَأَرَدْنَ بِذَلِكَ التَّعْرِيضَ لَا صَرِيحَ الْكَذِبِ فَهَذَا وَجْهُ الِاحْتِيَالِ الَّتِي قَالَتْ عَائِشَة لتحتالن لَهُ وَلَوْ كَانَ كَذِبًا مَحْضًا لَمْ يُسَمَّ حِيلَة إِذْ لَا شُبْهَة لصَاحبه

هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  باب مَا يُكْرَهُ مِنِ احْتِيَالِ الْمَرْأَةِ مَعَ الزَّوْجِ وَالضَّرَائِرِ وَمَا نَزَلَ عَلَى النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِى ذَلِكَ
( باب ما يكره من احتيال المرأة مع الزوج والضرائر) جمع ضرة بفتح الضاد المعجمة والراء المشددة ( وما نزل على النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ذلك) .


[ قــ :6606 ... غــ : 6972 ]
- حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَيُحِبُّ الْعَسَلَ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ أَجَازَ عَلَى نِسَائِهِ فَيَدْنُو مِنْهُنَّ، فَدَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ فَاحْتَبَسَ عِنْدَهَا، أَكْثَرَ مِمَّا كَانَ يَحْتَبِسُ فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ لِى: أَهْدَتِ امْرَأَةٌ مِنْ قَوْمِهَا عُكَّةَ عَسَلٍ، فَسَقَتْ رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- مِنْهُ شَرْبَةً، فَقُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَنَحْتَالَنَّ لَهُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَوْدَةَ قُلْتُ: إِذَا دَخَلَ عَلَيْكِ فَإِنَّهُ سَيَدْنُو مِنْكِ فَقُولِى لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ: لاَ، فَقُولِى لَهُ مَا هَذِهِ الرِّيحُ؟ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أَنْ يُوجَدُ مِنْهُ الرِّيحُ فَإِنَّهُ سَيَقُولُ: سَقَتْنِى حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ فَقُولِى لَهُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، وَسَأَقُولُ: ذَلِكَ وَقُولِيهِ أَنْتِ يَا صَفِيَّةُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى سَوْدَةَ قُلْتُ: تَقُولُ سَوْدَةُ وَالَّذِى لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ لَقَدْ كِدْتُ أَنْ أُبَادِرَهُ بِالَّذِى قُلْتِ لِى وَإِنَّهُ لَعَلَى الْبَابِ فَرَقًا مِنْكِ، فَلَمَّا دَنَا رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-.

.

قُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؟ قَالَ: «لاَ» قُلْتُ: فَمَا هَذِهِ الرِّيحُ؟ قَالَ: «سَقَتْنِى حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ» قُلْتُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَىَّ.

.

قُلْتُ لَهُ: مِثْلَ ذَلِكَ، وَدَخَلَ عَلَى صَفِيَّةَ فَقَالَتْ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ قَالَتْ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلاَ أَسْقِيكَ مِنْهُ؟ قَالَ: «لاَ حَاجَةَ لِى بِهِ» قَالَتْ: تَقُولُ سَوْدَةُ: سُبْحَانَ اللَّهِ لَقَدْ حَرَمْنَاهُ قَالَتْ:.

.

قُلْتُ لَهَا اسْكُتِى.

وبه قال: ( حدّثنا عبيد بن إسماعيل) القرشي الهباري بفتح الهاء والموحدة المشددة وبعد الألف راء مكسورة فتحتية قال ( حدّثنا أبو أسامة) حماد بن أسامة ( عن هشام عن أبيه) عروة بن الزبير ( عن عائشة) -رضي الله عنها- أنها ( قالت: كان رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يحب الحلواء) بالهمز والمد ويقصر فيكتب بالياء بدل الألف وعند الثعالبي في فقه اللغة أنها المجيع بفتح الميم وكسر الجيم بوزن عظيم وهو تمر يعجن بلبن ( ويحب العسل) أفرده لشرفه لما فيه من الخواص فهو كقوله تعالى: { وملائكته ورسله وجبريل} [البقرة: 98] ( وكان إذا صلّى العصر أجاز على نسائه) بفتح الهمزة والجيم وبعد الألف زاي أي يقطع المسافة التي بين كل واحدة والتي تليها يقال أجاز الوادي إذا قطعه وسبق في الطلاق من رواية عليّ بن مسهر إذا صلّى العصر دخل على نسائه
( فيدنو منهن فدخل على حفصة) أم المؤمنين بنت عمر -رضي الله عنهما- ( فاحتبس عندها أكثر مما كان يحتبس) أي أقام أكثر مما كان يقيم قالت عائشة: ( فسألت عن) سبب ( ذلك) الاحتباس ( فقال) ولأبوي ذر والوقت والأصيلي وابن عساكر فقيل ( لي أهدت امرأة) ولأبي ذر عن الكشميهني لها امرأة ( من قومها) لم أقف على اسمها ( عكة عسل فسقت رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- منه شربة) وسبق أن شربة العسل كانت عند زينب بنت جحش وهنا أنها عند حفصة وعند ابن مردويه عن ابن عباس أنها كانت عند سودة فيحمل على التعدد قالت عائشة ( فقلت: أما) بالتخفيف والألف ولأبي ذر أم بحذفها ( والله لنحتالن له) أي لأجله واللامان في لنحتالن بالفتح ( فذكرت ذلك لسودة) بنت زمعة ( قلت) ولأبي ذر وقلت لها: ( إذا دخل عليك) النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ( فإنه سيدنو) سيقرب ( منك فقولي له: يا رسول الله أكلت مغافير) بالغين المعجمة والفاء قال ابن قتيبة صمغ حلو له رائحة كريهة ( فإنه سيقول) لك ( لا فقولي له ما هل الريح) زاد في الطلاق التي أجد منك ( وكان رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يشتد عليه أن يوجد منه الريح) الغير طيب ( فإنه سيقول) لك ( سقتني حفصة شربة عسل فقولي له جرست) بفتح الجيم والراء والسين المهملة أي رعت ( نحلة العرفط) بضم العين المهملة والفاء بينهما راء ساكنة آخره طاء مهملة الشجر الذي صمغه المغافير ( وسأقول) أنا له ( ذلك وقوليه أنت يا صفية) بنت حيي ( فلما دخل) رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ( على سودة) بنت زمعة قالت عائشة ( قلت) ولأبي ذر قالت أي عائشة: ( تقول سودة) لي: ( والذي لا إله إلا هو لقد كدت) قاربت ( أن أبادره) من المبادرة وللأصيلي وأبي ذر عن الحموي والكشميهني أن أبادئه بالموحدة من المبادأة بالهمزة، ولابن عساكر وأبي الوقت وأبي ذر عن المستملي أناديه بالنون بدل الموحدة ( بالذي قلت لي وأنه) -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ( لعلى الباب فرقًا) بفتح الراء خوفًا ( منك فلما دنا) قرب ( رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) مني ( قلت له: يا رسول الله أكلت مغافير؟ قال) :
( لا) ما أكلت مغافير ( قلت: فما هذه الريح؟) زاد في الطلاق: التي أجد منك ( قال) : ( سقتني حفصة شربة عسل قلت) ولأبي ذر عن الحموي قالت أي سودة ( جرست) رعت ( نحله العرفط) قالت عائشة ( فلما دخل عليّ قلت له مثل ذلك) القول الذي قلت لسودة أن تقول له ( ودخل على صفية) بنت حيي ( فقالت له مثل ذلك فلما دخل على حفصة قالت له: يا رسول الله ألا) بالتخفيف ( أسقيك منه؟) بفتح الهمزة أي من العسل ( قال: لا حاجة لي به قالت) عائشة -رضي الله عنها- ( تقول سودة سبحان الله لقد حرمناه) بتخفيف الراء أي منعناه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- العسل ( قالت) عائشة ( قلت لها اسكتي) لئلا يفشو ذلك فيظهر ما دبرته لحفصة.

فإن قلت: كيف جاز على أزواجه -رضي الله عنهن- الاحتيال؟ أجيب: بأنه من مقتضيات الطبيعة للنساء في الغيرة وقد عفي عنهن.

والحديث سبق في الأطعمة والأشربة والطب والطلاق.

هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  ( بابُُ مَا يُكْرَهُ مِن احْتِيالِ المَرْأةِ مَعَ الزَّوْجِ والضَّرَائِرِ، وَمَا نَزَلَ على النبيِّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي ذَلِكَ)

أَي: هَذَا بابُُ فِي بَيَان مَا يكره ... الخ كلمة: مَوْصُولَة، والضرائر جمع ضرَّة بِفَتْح الضَّاد الْمُعْجَمَة وَتَشْديد الرَّاء.
قَوْله: وَمَا نزل أَي: وَفِي بَيَان مَا نزل على النَّبِي قَوْله: فِي ذَلِك أَي: فِيمَا ذكر من احتيال الْمَرْأَة مَعَ الزَّوْج والضرائر، وَأَرَادَ بقوله: وَمَا نزل قَوْله تَعَالَى: { يَا أَيهَا النَّبِي لَا تحرم مَا أحل الله لَك} وَذَلِكَ لما قَالَ شربت عسلاً وَلنْ أَعُود، وَقبل: إِنَّمَا حرم جَارِيَته مَارِيَة فَحلف أَن لَا يَطَأهَا، وَأسر ذَلِك إِلَى حَفْصَة فأفشته إِلَى عَائِشَة، وَنزل الْقُرْآن فِي ذَلِك.



[ قــ :6606 ... غــ :6972 ]
- حدّثنا عُبَيْدُ بنُ إسْماعِيلَ، حدّثنا أبُو أُسامَةَ، عنْ هشامٍ، عنْ أبِيهِ عنْ عائِشَةَ رَضِي الله تَعَالَى عَنْهَا قَالَتْ: كانَ رسولُ الله يُحِبُّ الحَلْوَاءَ ويُحِبُّ العَسَلَ وكانَ إذَا صَلَّى العَصْرَ أجازَ عَلى نِسائِهِ فَيَدْنو مِنْهُنَّ، فَدَخَلَ عَلى حَفْصَةَ فاحْتَبَسَ عِنْدَها، أكْثَرَ مِما كانَ يَحْتَبِسُ، فَسْألْتُ عنْ ذَلِكَ فَقَالَ لي: أهْدَتِ امْرأةٌ مِنْ قَوْمِها عُكَّةَ عَسَلِ، فَسَقَتْ رسولَ الله مِنْهُ شَرْبَةً فَقُلْتُ أما واللَّهِ لَنَحْتالَنَّ لهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَوْدَةَ، قُلْتُ: إذَا دَخَلَ عَلَيْكِ فإنَّهُ سَيَدْنُو مِنْكِ، فقُولِي لهُ: يَا رسولَ الله أكَلْتَ مَغافِيرَ؟ فإنَّهُ سَيَقُولُ: لَا، فَقُولي لهُ: مَا هاذِهِ الرِّيحُ؟ وكانَ رسولُ الله يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أنْ يُوجَدَ مِنْهُ الرِّيحُ فإنَّهُ سَيَقُولُ سَقَتْنِي حَفْصةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ، فَقُولي لهُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ العرْفُطَ، وسأقُولُ ذالِكِ، وقُولِيهِ أنْتِ يَا صَفِيّةُ، فَلمَّا دَخَلَ عَلى سَوْدَةَ قُلْتُ: تَقُولُ سَوْدَةُ: والّذِي لَا إلاهَ إلاّ هُوَ لَقَدْ كِدْتُ أنْ أُبادِرَهُ بالَّذِي قُلْتِ لي، وإنّهُ لَعَلى البابُِ فَرَقاً مِنْكِ، فَلَمَّا دنا رسولُ الله.

.

قُلْتُ يَا رسوُلَ اللَّهِ أكَلْتَ مَغافِيرِ؟ قَالَ: لَا.

.

قُلْتُ فَما هاذِهِ الرِّيحُ؟ قَالَ: سَقَتْني حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ.

.

قُلْتُ جَرَسَتْ نَحْلُهُ العُرْفُطَ فلمَّا دَخلَ عَليَّ.

.

قُلْتُ لهُ مثْلَ ذَلِكَ، ودَخَلَ عَلى صَفِيّةَ فقالَتْ لهُ مِثْلَ ذَلِكَ، فَلمَّا دَخَلَ عَلى حَفْصَةَ قالَتْ لَهُ: يَا رسُولَ الله أَلا أسْقِيكَ مِنْهُ؟ قَالَ: لَا حاجةَ لي بِهِ قالَتْ تَقُولُ سَوْدَةُ سُبْحانَ الله لَقَدْ حرَمْناهُ.
قالَتْ:.

.

قُلْتُ لَهَا: اسْكُتِي.

مطابقته للتَّرْجَمَة تُؤْخَذ من قَوْله: وَالله لنحتالن لَهُ
وَأَبُو أُسَامَة حَمَّاد بن أُسَامَة، وَهِشَام هُوَ ابْن عُرْوَة يروي عَن أَبِيه عُرْوَة بن الزبير عَن أم الْمُؤمنِينَ عَائِشَة، رَضِي الله تَعَالَى عَنْهَا.

والْحَدِيث قد مضى فِي الْأَطْعِمَة عَن إِسْحَاق بن إِبْرَاهِيم وَفِي الْأَشْرِبَة عَن عبد الله بن أبي شيبَة وَفِيه وَفِي الطِّبّ عَن عَليّ بن عبد الله وَهنا عبيد بن إِسْمَاعِيل أربعتهم عَن أبي أُسَامَة.
وَأخرجه بَقِيَّة الْجَمَاعَة وَقد ذَكرْنَاهُ.

قَوْله: الْحَلْوَاء بِمد وبقصر، قَالَ الدَّاودِيّ: يُرِيد التَّمْر وَشبهه.
قَوْله: أجَاز أَي: تمم النَّهَار وأنفده، يُقَال: جَازَ الْوَادي جَوَازًا، وَأَجَازَهُ إِذا قطعه،.

     وَقَالَ  الْأَصْمَعِي: جَازَ مَشى فِيهِ، وَأَجَازَهُ قطعه، وَذكره ابْن التِّين بِلَفْظ: جَازَ، قَالَ: كَذَا وَقع فِي الْمُجْمل.

     وَقَالَ  الضَّحَّاك: جزت الْموضع سرت فِيهِ وأجزته خلفته وقطعته.
قَوْله: عكة بِالضَّمِّ الْآنِية من الْجلد.
قَوْله: فسقت رَسُول الله شربة يَعْنِي: حَفْصَة، قَالَ صَاحب التَّوْضِيح هَذِه غلط لِأَن حَفْصَة هِيَ الَّتِي تظاهرت مَعَ عَائِشَة فِي هَذِه الْقِصَّة، وَإِنَّمَا شربه عِنْد صَفِيَّة بنت حييّ، وَقيل: عِنْد زَيْنَب، وَالأَصَح أَنَّهَا زَيْنَب،.

     وَقَالَ  الْكرْمَانِي: تقدم فِي كتاب الطَّلَاق أَنه شرب فِي بَيت زَيْنَب والمتظاهرتان على هَذَا القَوْل عَائِشَة وَحَفْصَة، ثمَّ قَالَ: لَعَلَّه شرب فِي بيتهما فهما قضيتان.
قَوْله: لنحتالن من الاحتيال.
فَإِن قلت: كَيفَ جَازَ على أَزوَاجه الاحتيال؟ .
قلت: هَذِه من مقتضيات الطبيعة للنِّسَاء، وَقد عفى عَنْهُن.
قَوْله: مَغَافِير جمع مغْفُور بالغين الْمُعْجَمَة وبالفاء وَالْوَاو وَالرَّاء وَهُوَ صبغ كالعسل لَهُ رَائِحَة كريهة.
قَوْله: جرست بِالْجِيم وَالرَّاء وبالسين الْمُهْملَة أَي: لحست بِاللِّسَانِ وأكلت.
قَوْله: العرفط بِضَم الْعين الْمُهْملَة وَالْفَاء وَإِسْكَان الرَّاء وبالطاء الْمُهْملَة وَهُوَ شجر خَبِيث الثَّمر، وَقيل: العرفط مَوضِع، وَقيل: شجر من العضاء وثمرته بَيْضَاء مدحرجة،.

     وَقَالَ  الْجَوْهَرِي: ثَمَرَة كل العضاء صفراء إلاَّ أَن العرفط ثَمَرَته بَيْضَاء.
قَوْله: أَن أبادره من الْمُبَادرَة ويروى أَن أبادئه بِالْبَاء الْمُوَحدَة من المبادأة، يُقَال: أبادئهم أَمرهم أَي: أظهره، ويروى: أَن أناديه، بالنُّون مَوضِع الْبَاء.
قَوْله: أَلا أسقيك؟ بِضَم الْهمزَة وَفتحهَا، وَفِي الصِّحَاح سقيته وأسقيته.
قَوْله: حرمناه أَي: منعناه من الْعَسَل.