هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6573 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ فُلَانٍ ، قَالَ : تَنَازَعَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَحِبَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ ، فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، لِحِبَّانَ : لَقَدْ عَلِمْتُ مَا الَّذِي جَرَّأَ صَاحِبَكَ عَلَى الدِّمَاءِ ، يَعْنِي عَلِيًّا ، قَالَ : مَا هُوَ لَا أَبَا لَكَ ؟ قَالَ : شَيْءٌ سَمِعْتُهُ يَقُولُهُ ، قَالَ : مَا هُوَ ؟ قَالَ : بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالزُّبَيْرَ وَأَبَا مَرْثَدٍ ، وَكُلُّنَا فَارِسٌ ، قَالَ : انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ حَاجٍ - قَالَ أَبُو سَلَمَةَ : هَكَذَا قَالَ أَبُو عَوَانَةَ : حَاجٍ - فَإِنَّ فِيهَا امْرَأَةً مَعَهَا صَحِيفَةٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى المُشْرِكِينَ ، فَأْتُونِي بِهَا فَانْطَلَقْنَا عَلَى أَفْرَاسِنَا حَتَّى أَدْرَكْنَاهَا حَيْثُ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، تَسِيرُ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا ، وَقَدْ كَانَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ بِمَسِيرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ ، فَقُلْنَا : أَيْنَ الكِتَابُ الَّذِي مَعَكِ ؟ قَالَتْ : مَا مَعِي كِتَابٌ ، فَأَنَخْنَا بِهَا بَعِيرَهَا ، فَابْتَغَيْنَا فِي رَحْلِهَا فَمَا وَجَدْنَا شَيْئًا ، فَقَالَ صَاحِبَايَ : مَا نَرَى مَعَهَا كِتَابًا ، قَالَ : فَقُلْتُ : لَقَدْ عَلِمْنَا مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ حَلَفَ عَلِيٌّ : وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ ، لَتُخْرِجِنَّ الكِتَابَ أَوْ لَأُجَرِّدَنَّكِ ، فَأَهْوَتِ الى حُجْزَتِهَا ، وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ ، فَأَخْرَجَتِ الصَّحِيفَةَ ، فَأَتَوْا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ عُمَرُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالمُؤْمِنِينَ ، دَعْنِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا حَاطِبُ ، مَا حَمَلكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا لِي أَنْ لَا أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ؟ وَلَكِنِّي أَرَدْتُ أَنْ يَكُونَ لِي عِنْدَ القَوْمِ يَدٌ يُدْفَعُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي ، وَلَيْسَ مِنْ أَصْحَابِكَ أَحَدٌ إِلَّا لَهُ هُنَالِكَ مِنْ قَوْمِهِ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ ، قَالَ : صَدَقَ ، لَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا قَالَ : فَعَادَ عُمَرُ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالمُؤْمِنِينَ ، دَعْنِي فَلِأَضْرِبْ عُنُقَهُ ، قَالَ : أَوَلَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ ، وَمَا يُدْرِيكَ ، لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ : اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ، فَقَدْ أَوْجَبْتُ لَكُمُ الجَنَّةَ فَاغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ ، فَقَالَ : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ : خَاخٍ أَصَحُّ ، وَلَكِنْ كَذَا قَالَ أَبُو عَوَانَةَ : حَاجٍ ، وَحَاجٍ تَصْحِيفٌ ، وَهُوَ مَوْضِعٌ ، وَهُشَيْمٌ يَقُولُ : خَاخٍ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  قال أبو سلمة : هكذا قال أبو عوانة : حاج فإن فيها امرأة معها صحيفة من حاطب بن أبي بلتعة إلى المشركين ، فأتوني بها فانطلقنا على أفراسنا حتى أدركناها حيث قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ، تسير على بعير لها ، وقد كان كتب إلى أهل مكة بمسير رسول الله صلى الله عليه وسلم إليهم ، فقلنا : أين الكتاب الذي معك ؟ قالت : ما معي كتاب ، فأنخنا بها بعيرها ، فابتغينا في رحلها فما وجدنا شيئا ، فقال صاحباي : ما نرى معها كتابا ، قال : فقلت : لقد علمنا ما كذب رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ثم حلف علي : والذي يحلف به ، لتخرجن الكتاب أو لأجردنك ، فأهوت الى حجزتها ، وهي محتجزة بكساء ، فأخرجت الصحيفة ، فأتوا بها رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال عمر : يا رسول الله ، قد خان الله ورسوله والمؤمنين ، دعني فأضرب عنقه ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يا حاطب ، ما حملك على ما صنعت قال : يا رسول الله ، ما لي أن لا أكون مؤمنا بالله ورسوله ؟ ولكني أردت أن يكون لي عند القوم يد يدفع بها عن أهلي ومالي ، وليس من أصحابك أحد إلا له هنالك من قومه من يدفع الله به عن أهله وماله ، قال : صدق ، لا تقولوا له إلا خيرا قال : فعاد عمر فقال : يا رسول الله ، قد خان الله ورسوله والمؤمنين ، دعني فلأضرب عنقه ، قال : أوليس من أهل بدر ، وما يدريك ، لعل الله اطلع عليهم فقال : اعملوا ما شئتم ، فقد أوجبت لكم الجنة فاغرورقت عيناه ، فقال : الله ورسوله أعلم قال أبو عبد الله : خاخ أصح ، ولكن كذا قال أبو عوانة : حاج ، وحاج تصحيف ، وهو موضع ، وهشيم يقول : خاخ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated:

Abu `Abdur-Rahman and Hibban bin 'Atiyya had a dispute. Abu `Abdur-Rahman said to Hibban, You know what made your companions (i.e. `Ali) dare to shed blood. Hibban said, Come on! What is that? `Abdur-Rahman said, Something I heard him saying. The other said, What was it? `AbdurRahman said, `Ali said, Allah's Messenger (ﷺ) sent for me, Az-Zubair and Abu Marthad, and all of us were cavalry men, and said, 'Proceed to Raudat-Hajj (Abu Salama said that Abu 'Awana called it like this, i.e., Hajj where there is a woman carrying a letter from Hatib bin Abi Balta'a to the pagans (of Mecca). So bring that letter to me.' So we proceeded riding on our horses till we overtook her at the same place of which Allah's Messenger (ﷺ) had told us. She was traveling on her camel. In that letter Hatib had written to the Meccans about the proposed attached of Allah's Messenger (ﷺ) against them. We asked her, Where is the letter which is with you?' She replied, 'I haven't got any letter.' So we made her camel kneel down and searched her luggage, but we did not find anything. My two companions said, 'We do not think that she has got a letter.' I said, 'We know that Allah's Messenger (ﷺ) has not told a lie.' Then `Ali took an oath saying, By Him by Whom one should swear! You shall either bring out the letter or we shall strip off your clothes. She then stretched out her hand for her girdle (round her waist) and brought out the paper (letter). They took the letter to Allah's Messenger (ﷺ). `Umar said, O Allah's Messenger (ﷺ)! (Hatib) has betrayed Allah, His Apostle and the believers; let me chop off his neck! Allah's Messenger (ﷺ) said, O Hatib! What obliged you to do what you have done? Hatib replied, O Allah's Messenger (ﷺ)! Why (for what reason) should I not believe in Allah and His Apostle? But I intended to do the (Mecca) people a favor by virtue of which my family and property may be protected as there is none of your companions but has some of his people (relatives) whom Allah urges to protect his family and property. The Prophet (ﷺ) said, He has said the truth; therefore, do not say anything to him except good. `Umar again said, O Allah's Messenger (ﷺ)! He has betrayed Allah, His Apostle and the believers; let me chop his neck off! The Prophet (ﷺ) said, Isn't he from those who fought the battle of Badr? And what do you know, Allah might have looked at them (Badr warriors) and said (to them), 'Do what you like, for I have granted you Paradise?' On that, `Umar's eyes became flooded with tears and he said, Allah and His Apostle know best.

":"ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوعوانہ وضاح شکری نے بیان کیا ، ان سے حصین بن عبدالرحمٰن سلمی نے ، ان سے فلاں شخص ( سعید بن عبیدہ ) نے کہابوعبدالرحمن اور حبان بن عطیہ کا آپس میں اختلاف ہوا ۔ ابوعبدالرحمن نے حبان سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے ساتھی خون بہانے میں کس قدر جری ہو گئے ہیں ۔ ان کا اشارہ علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھا اس پ رحبان نے کہا انہوں نے کیا کیا ہے تیرا باپ نہیں ۔ ابوعبدالرحمن نے کہا کہ علی کہتے تھے کہ مجھے ، زبیر اور ابومرثد رضی اللہ عنہم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا اور ہم سب گھوڑوں پر سوار تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اور جب روضہ خاخ پر پہنچو ( جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ ہے ) ابوسلمہ نے بیان کیا کہ ابوعوانہ نے خاخ کے بدلے حاج کہا ہے ۔ تو وہاں تمہیں ایک عورت ( سارہ نامی ) ملے گی اور اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو مشرکین مکہ کو لکھاگیا ہے تم وہ خط میرے پاس لاؤ ۔ چنانچہ ہم اپنے گھوڑوں پر دوڑے اور ہم نے اسے وہیں پکڑا جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا ۔ وہ عورت اپنے اونٹ پر سوارجا رہی تھی حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے اہل مکہ کو آنحضرت کی مکہ کو آنے کی خبر دی تھی ۔ ہم نے اس عورت سے کہا کہ تمہارے پاس وہ خط کہاں ہے اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے ہم نے اس کا اونٹ بٹھا دیا اور اس کے کجاوہ کی تلاشی لی لیکن اس میں کوئی خط نہیں ملا ۔ میرے ساتھی نے کہا کہ اس کے پاس کوئی خط نہیں معلوم ہوتا ۔ راوی نے بیان کیا کہ ہمیں یقین ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غلط بات نہیں فرمائی پھر علی رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ اس ذات کی قسم جس کی قسم کھائی جاتی ہے خط نکال دے ورنہ میں تجھے ننگی کروں گا اب وہ عورت اپنے نیفے کی طرف جھکی اس نے ایک چادر کمر پر باندھ رکھی تھی اور خط نکالا ۔ اس کے بعد یہ لوگ خط آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ہے ، مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں ۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ حاطب ! تم نے ایسا کیوں کیا ؟ حاطب رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ ! بھلا کیا مجھ سے یہ ممکن ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ رکھوں میرا مطلب اس خط کے لکھنے سے صرف یہ تھا کہ میرا ایک احسان مکہ والوں پر ہو جائے جس کی وجہ سے میں اپنی جائیداد اور بال بچوں کو ( ان کے ہاتھ سے ) بچالوں ۔ بات یہ ہے کہ آپ کے اصحاب میں کوئی ایسا نہیں جس کے مکہ میں ان کی قوم میں کے ایسے لوگ نہ ہوں جس کی وجہ سے اللہ ان کے بچوں اور جائیداد پر کوئی آفت نہیں آنے دیتا ۔ مگر میرا وہاں کوئی نہیں ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا ہے ۔ بھلائی کے سوا ان کے بارے میں اور کچھ نہ کہو ۔ بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی ہے ۔ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ جنگ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے نہیں ہیں ؟ تمہیں کیا معلوم اللہ تعالیٰ ان کے اعمال سے واقف تھا اور پھر فرمایا کہ جو چاہو کرو میں نے جنت تمہارے لیے لکھ دی ہے اس پر عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں ( خوشی سے ) آنسو بھرآئے اور عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی کو حقیقت کا زیادہ علم ہے ۔ ابوعبداللہ ( حضرت امام بخاری ) نے کہا کہ ” خاخ “ زیادہ صحیح ہے لیکن ابوعوانہ نے حاج ہی بیان کیا ہے اور لفظ حاج بدلا ہوا ہے یہ ایک جگہ کا نام ہے اور ہیثم نے ” خاخ “ بیان کیا ہے ۔

شرح الحديث من إرشاد الساري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،   
[ قــ :6573 ... غــ : 6939 ]
- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ فُلاَنٍ قَالَ: تَنَازَعَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَحِبَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ لِحِبَّانَ: لَقَدْ عَلِمْتُ الَّذِى جَرَّأَ صَاحِبَكَ عَلَى الدِّمَاءِ يَعْنِى عَلِيًّا قَالَ: مَا هُوَ لاَ أَبَا لَكَ، قَالَ شَىْءٌ سَمِعْتُهُ يَقُولُهُ: قَالَ: مَا هُوَ؟ قَالَ: بَعَثَنِى رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَالزُّبَيْرَ وَأَبَا مَرْثَدٍ، وَكُلُّنَا فَارِسٌ قَالَ: «انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ حَاجٍ» قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: هَكَذَا قَالَ أَبُو عَوَانَةَ حَاجٍ «فَإِنَّ فِيهَا امْرَأَةً مَعَهَا صَحِيفَةٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِى بَلْتَعَةَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَأْتُونِى بِهَا»، فَانْطَلَقْنَا عَلَى أَفْرَاسِنَا حَتَّى أَدْرَكْنَاهَا حَيْثُ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- تَسِيرُ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا وَكَانَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ بِمَسِيرِ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- إِلَيْهِمْ فَقُلْنَا: أَيْنَ الْكِتَابُ الَّذِى مَعَكِ؟ قَالَتْ: مَا مَعِى كِتَابٌ، فَأَنَخْنَا بِهَا بَعِيرَهَا فَابْتَغَيْنَا فِى رَحْلِهَا فَمَا وَجَدْنَا شَيْئًا فَقَالَ صَاحِبِى: مَا نَرَى مَعَهَا كِتَابًا قَالَ: فَقُلْتُ لَقَدْ عَلِمْنَا مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، ثُمَّ حَلَفَ عَلِىٌّ وَالَّذِى يُحْلَفُ بِهِ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لأُجَرِّدَنَّكِ، فَأَهْوَتْ إِلَى حُجْزَتِهَا وَهْىَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ، فَأَخْرَجَتِ الصَّحِيفَةَ، فَأَتَوْا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ دَعْنِى فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: «يَا حَاطِبُ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟» قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لِى أَنْ لاَ أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَلَكِنِّى أَرَدْتُ أَنْ يَكُونَ لِى عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يُدْفَعُ بِهَا عَنْ أَهْلِى وَمَالِى، وَلَيْسَ مِنْ أَصْحَابِكَ أَحَدٌ إِلاَّ لَهُ هُنَالِكَ مِنْ قَوْمِهِ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ.
قَالَ: «صَدَقَ لاَ تَقُولُوا لَهُ إِلاَّ خَيْرًا» قَالَ: فَعَادَ عُمَرُ فَقَالَ: يَا رَسُولُ اللَّهِ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ دَعْنِى فَلأَضْرِبَ عُنُقَهُ قَالَ: «أَوَلَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ؟ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ أَوْجَبْتُ لَكُمُ الْجَنَّةَ» فَاغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.
فَاغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.
قَالَ أَبُو عَبْد الله: خاخٍ أَصَحُّ، وَلَكِنْ كَذَلِكَ قَالَ أَبُو عَوَانَةَ: حاجٍ وَحَاجٌ تَصْحيفٌ، وَهُوَ مَوْضِعٌ وَهُشَيْمٌ يَقُولُ: خاخٍ.

وبه قال: ( حدّثنا موسى بن إسماعيل) التبوذكي قال: ( حدّثنا أبو عوانة) الوضاح اليشكري ( عن حصين) بضم الحاء وفتح الصاد المهملتين ابن عبد الرحمن السلمي أبي الهذيل الكوفي ( عن فلان) في روايتي أبي ذر والأصيلي هو سعد بن عبيدة وكذا وقع في رواية هشيم في الجهاد وعبد الله بن إدريس في الاستئذان وهو سلمي كوفي يكنى أبا حمزة وكان زوج بنت أبي عبد الرحمن السلمي شيخه في هذا الحديث أنه ( قال: تنازع أبو عبد الرحمن) عبد الله بن ربيعة بفتح الموحدة وتشديد التحتية السلمي الكوفي المقرئ المشهور بكنيته ولأبيه صحبة ( وحبان بن عطية) السلمي بكسر الحاء المهملة وتشديد الموحدة وعند أبي ذر بفتحها وهو وهم قال في التقريب لا أعرف له رواية وإنما له ذكر في البخاري وهو من الطبقة الثانية ( فقال أبو عبد الرحمن لحبان: لقد علمت الذي) ولأبي ذر عن الحموي والمستملي علمت من الذي وله عن الكشميهني ما ( جرأ)
بفتح الجيم والراء المشددة والهمزة أقدم ( صاحبك على) إراقة ( الدماء) أي دماء المسلمين ( يعني عليًّا) -رضي الله عنه- ( قال) حبان ( ما هو) الذي جرأه ( لا أبالك) قال في الكواكب: جوزوا هذا التركيب تشبيهًا بالمضاف وإلاّ فالقياس لا أب لك وهو مما يستعمل دعامة للكلام ولا يراد به الدعاء عليه حقيقة اهـ.
وهي كلمة تقال عند الحث على الشيء والأصل فيه أن الإنسان إذا وقع في شدة عاونه أبوه، فإذا قيل لا أبا لك فمعناه ليس لك أب جدّ في الأمر جدّ من ليس له معاون، ثم أطلق في الاستعمال في مواضع استبعاد ما يصدر من المخاطب من قول أو فعل ( قال) أبو عبد الرحمن ( شيء) جرأه ( سمعته يقوله) صفة لشيء والضمير المنصوب فيه يرجع إلى شيء ولأبي ذر عن الكشميهني والمستملي يقول بحذف ضمير النصب ( قال) حبان ( ما هو؟) أي ذلك الشيء ( قال) أبو عبد الرحمن قال علي ( بعثني رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- والزبير) بن العوّام ( وأبا مرثد) بفتح الميم والمثلثة بينهما راء ساكنة كنازًا بفتح الكاف والنون المشددة وبعد الألف زاي الغنوي بالغين المعجمة والنون المفتوحتين، وقوله والزبير نصب عطفًا على نون الوقاية لأن محلها النصب وفي مثل هذا العطف خلاف بين البصريين والكوفيين ومثله قراءة حمزة والأرحام بالخفض عطفًا على الضمير المجرور في به من غير إعادة الجار وهو مذهب كوفي لا يجيزه البصريون، وقد ذكرت مبحثه في كتابي الكبير في القراءات الأربعة عشر.

وسبق في غزوة الفتح من طريق عبيد الله بن أبي رافع عن علي ذكر المقداد بدل أبي مرثد فيحتمل أن الثلاثة كانوا مع علي، وفي باب الجاسوس أنا والزبير والمقدام أي بالميم قال في الكواكب: ذكر القليل لا ينفي الكثير ( وكلنا فارس) أي راكب فرسًا ( قال) :
( انطلقوا حتى تأتوا روضة حاج) بحاء مهملة وبعد الألف جيم موضع قريب من مكة أو بقرب المدينة نحو اثني عشر ميلاً ( قال أبو سلمة) موسى بن إسماعيل شيخ المؤلّف فيه: ( هكذا قال أبو عوانة) الوضاح ( حاج) بالحاء المهملة والجيم.
قال أبو ذر: كذا الرواية هنا، والصواب خاخ بخاءين معجمتين.
قال النووي، قال العلماء: هو غلط من أبي عوانة وكأنه اشتبه عليه بمكان آخر يقال له ذات حاج بالحاء المهملة والجيم وهو موضع بين المدينة والشأم يسلكه الحاج والأصح خاخ بمعجمتين ( فإن فيها امرأة) اسمها سارة كما عند ابن إسحاق أو كنود كما عند الواقدي ( معها صحيفة من حاطب بن أبي بلتعة) بالحاء والطاء المهملتين بينهما ألف آخره موحدة وبلتعة بفتح الموحدة وسكون اللام وفتح الفوقية والعين المهملة ( إلى المشركين) بمكة ( فائتوني بها) بالصحيفة ( فانطلقنا على أفراسنا حتى أدركناها حيث قال لنا رسول) ولأبي ذر النبي ( -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) حال كونها ( تسير على بعير لها.
وكان)
ولأبي ذر وقد كان أي حاطب ( كتب إلى أهل مكة) صفوان بن أمية وسهيل بن عمرو وعكرمة بن أبي جهل يخبرهم ( بمسير رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- إليهم) ولفظ الكتاب ذكرته في الجهاد وعند الواقدي فأتاها حاطب فكتب معها كتابًا إلى أهل مكة أن رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يريد أن يغزو فخذوا حذركم ( فقلنا) لها ( أين الكتاب الذي معك؟ قالت: ما معي كتاب فأنخنا بها بعيرها فابتغينا) أي طلبنا ( هـ في رحلها فما وجدنا شيئًا فقال صاحبي) وفي نسخة صاحباي الزبير
وأبو مرثد ( ما نرى معها كتابًا قال) علي: ( فقلت) لهما ( لقد علمنا) ولأبي ذر عن الكشميهني لقد علمتما ( ما كذب رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ثم حلف علي) -رضي الله عنه- ( والذي يحلف به) فقال والله ( لتخرجن الكتاب) بضم الفوقية وكسر الراء والجيم ( أو لأجردنك) من ثيابك حتى تصيري عريانة ( فأهوت) مالت بيدها ( إلى حجزتها) بضم الحاء المهملة وسكون الجيم بعدها زاي معقد إزارها ( وهي محتجزة بكساء) شدته على وسطها زاد في حديث أنس عند ابن مردويه فقالت أدفعه إليكما على أن لا ترداني إلى النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- واختلف في إسلامها والأكثر على أنها على دين قومها وقد عدت فيمن أهدر النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- دمهم يوم الفتح لأنها كانت تغني بهجاء أصحابه ( فأخرجت الصحيفة فأتوا بها) بالصحيفة ( رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) فقرئت عليه ( فقال عمر) -رضي الله عنه-: ( يا رسول الله قد خان الله ورسوله والمؤمنين دعني فأضرب) بالنصب ( عنقه) وفي غزوة الفتح دعني أضرب عنق هذا المنافق ( فقال رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يا حاطب ما حملك على ما صنعت قال: يا رسول الله ما لي) ولأبي ذر عن المستملي ما بي بالموحدة بدل اللام وهي أوجه ( أن لا) بفتح الهمزة ( أكون مؤمنًا بالله ورسوله) ولأبي ذر وبرسوله وفي رواية ابن عباس والله أني لنا صح لله ورسوله ( ولكني أردت أن يكون لي عند القوم) مشركي مكة ( يد) منة ( يدفع بها) بضم التحتية وفي نسخة يدفع الله بها ( عن أهلي ومالي وليس من أصحابك أحد إلا له هنالك) أي بمكة، ولأبي ذر عن الكشميهني: هناك بإسقاط اللام ( من قومه من يدفع الله به عن أهله وماله قال) -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: ( صدق) حاطب ويحتمل أن يكون عرف صدقه بما ذكره أو بوحي ( لا) ولأبي ذر ولا ( تقولوا له إلا خيرًا قال) عليّ ( فعاد عمر) إلى قوله الأول في حاطب ( فقال: يا رسول الله قد خان الله ورسوله والمؤمنين دعني) ولأبي ذر عن الكشميهني فدعني ( فلأضرب عنقه) بكسر اللام والنصب.

قال في الكواكب وهو في تأويل مصدر محذوف وهو خبر مبتدأ محذوف أي اتركني لأضرب عنقه فتركك لي من أجل الضرب ويجوز سكون الباء والفاء زائدة على رأي الأخفش واللام للأمر ويجوز فتحها على لغة سليم وتسكينها مع الفاء على لغة قريش وأمر المتكلم نفسه باللام فصيح قليل الاستعمال ذكره ابن مالك في قوموا فلأصل لكم وبالرفع أي فوالله لأضرب، واستشكل قول عمر ثانيًا دعني أضرب عنقه بعد قول النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ( صدق ولا تقولوا له إلا خيرًا) وأجيب: بأن عمر ظن أن صدقه في عذره لا يدفع عنه ما وجب عليه من القتل.

( قال) -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: ( أوليس من أهل بدر) استفهام تقريري وزاد الحارث عند أبي يعلى فقال عمر: بلى ولكنه نكث وظاهر أعداءك عليك فقال عليه الصلاة والسلام ( وما يدريك) يا عمر ( لعل الله اطلع عليهم) على أهل بدر ( فقال اعملوا ما شئتم) في المستقبل ( فقد أوجبت لكم الجنة) وفي غزوة الفتح فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم أي إن ذنوبهم تقع مغفورة حتى لو تركوا فرضًا مثلاً لم يؤاخذوا بذلك، ويؤيده حديث سهل بن الحنظلية في قصة الذي حرس ليلة حنين فقال له النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- هل نزلت الليلة؟ قال: لا إلا لقضاء حاجة قال: لا عليك أن لا تعمل بعدها والمتفق عليه أن أهل بدر مغفور لهم فيما يتعلق بالآخرة أما الحدود في الدنيا فلا فلقد جلد مسطحًا في
قصة الإفك ( فاغرورقت عيناه) بالغين المعجمة الساكنة والراءين بينهما واو ساكنة ثم قاف افعوعلت من الغرق أي امتلأت عينا عمر من الدموع حتى كأنها غرقت ( فقال) عمر -رضي الله عنه- ( الله ورسوله أعلم) .

( قال أبو عبد الله) البخاري ( خاخ) بالمعجمتين ( أصح، ولكن كذا قال أبو عوانة) الوضاح ( حاج) بالحاء المهملة ثم الجيم ( وحاج) بالمهملة والجيم ( تصحيف وهو موضع) بين مكة والمدينة ( وهيثم) بفتح الهاء وبعد التحتية الساكنة مثلثة كذا في الفرع ولعله سبق قلم والذي في اليونينية ووقفت عليه من الأصول المعتمدة وهشيم بضم الهاء وفتح الشين المعجمة مصغرًا ابن بشير الواسطي في روايته عن أبي حصين مما وصله في الجهاد ( يقول خاخ) بالمعجمتين وقوله قال أبو عبد الله ثابت في رواية المستملي.