هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6224 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ يَوْمَ القِيَامَةِ ، فَيَقُولُونَ : لَوِ اسْتَشْفَعْنَا عَلَى رَبِّنَا حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا ، فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ : أَنْتَ الَّذِي خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ ، وَأَمَرَ المَلاَئِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ ، فَاشْفَعْ لَنَا عِنْدَ رَبِّنَا . فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ ، وَيَقُولُ : ائْتُوا نُوحًا ، أَوَّلَ رَسُولٍ بَعَثَهُ اللَّهُ ، فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ ، ائْتُوا إِبْرَاهِيمَ الَّذِي اتَّخَذَهُ اللَّهُ خَلِيلًا ، فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ ، ائْتُوا مُوسَى الَّذِي كَلَّمَهُ اللَّهُ ، فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ ، فَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ ، ائْتُوا عِيسَى فَيَأْتُونَهُ ، فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ ، ائْتُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ ، فَيَأْتُونِي ، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي ، فَإِذَا رَأَيْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا ، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ ، ثُمَّ يُقَالُ لِي : ارْفَعْ رَأْسَكَ : سَلْ تُعْطَهْ ، وَقُلْ يُسْمَعْ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي ، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِي ، ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا ، ثُمَّ أُخْرِجُهُمْ مِنَ النَّارِ ، وَأُدْخِلُهُمُ الجَنَّةَ ، ثُمَّ أَعُودُ فَأَقَعُ سَاجِدًا مِثْلَهُ فِي الثَّالِثَةِ ، أَوِ الرَّابِعَةِ ، حَتَّى مَا بَقِيَ فِي النَّارِ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ القُرْآنُ وَكَانَ قَتَادَةُ ، يَقُولُ عِنْدَ هَذَا : أَيْ وَجَبَ عَلَيْهِ الخُلُودُ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6224 حدثنا مسدد ، حدثنا أبو عوانة ، عن قتادة ، عن أنس رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يجمع الله الناس يوم القيامة ، فيقولون : لو استشفعنا على ربنا حتى يريحنا من مكاننا ، فيأتون آدم فيقولون : أنت الذي خلقك الله بيده ، ونفخ فيك من روحه ، وأمر الملائكة فسجدوا لك ، فاشفع لنا عند ربنا . فيقول : لست هناكم ، ويذكر خطيئته ، ويقول : ائتوا نوحا ، أول رسول بعثه الله ، فيأتونه فيقول : لست هناكم ، ويذكر خطيئته ، ائتوا إبراهيم الذي اتخذه الله خليلا ، فيأتونه فيقول : لست هناكم ، ويذكر خطيئته ، ائتوا موسى الذي كلمه الله ، فيأتونه فيقول : لست هناكم ، فيذكر خطيئته ، ائتوا عيسى فيأتونه ، فيقول : لست هناكم ، ائتوا محمدا صلى الله عليه وسلم ، فقد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر ، فيأتوني ، فأستأذن على ربي ، فإذا رأيته وقعت ساجدا ، فيدعني ما شاء الله ، ثم يقال لي : ارفع رأسك : سل تعطه ، وقل يسمع ، واشفع تشفع ، فأرفع رأسي ، فأحمد ربي بتحميد يعلمني ، ثم أشفع فيحد لي حدا ، ثم أخرجهم من النار ، وأدخلهم الجنة ، ثم أعود فأقع ساجدا مثله في الثالثة ، أو الرابعة ، حتى ما بقي في النار إلا من حبسه القرآن وكان قتادة ، يقول عند هذا : أي وجب عليه الخلود
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated Anas:

Allah's Messenger (ﷺ) said, Allah will gather all the people on the Day of Resurrection and they will say, 'Let us request someone to intercede for us with our Lord so that He may relieve us from this place of ours.' Then they will go to Adam and say, 'You are the one whom Allah created with His Own Hands, and breathed in you of His soul, and ordered the angels to prostrate to you; so please intercede for us with our Lord.' Adam will reply, 'I am not fit for this undertaking, and will remember his sin, and will say, 'Go to Noah, the first Apostle sent by Allah' They will go to him and he will say, 'I am not fit for this undertaking', and will remember his sin and say, 'Go to Abraham whom Allah took as a Khalil. They will go to him (and request similarly). He will reply, 'I am not fit for this undertaking,' and will remember his sin and say, 'Go to Moses to whom Allah spoke directly.' They will go to Moses and he will say, 'I am not fit for this undertaking,' and will remember his sin and say, 'Go to Jesus.' They will go to him, and he will say, 'I am not fit for this undertaking, go to Muhammad as Allah has forgiven his past and future sins.' They will come to me and I will ask my Lord's permission, and when I see Him, I will fall down in prostration to Him, and He will leave me in that state as long as (He) Allah will, and then I will be addressed. 'Raise up your head (O Muhammad)! Ask, and your request will be granted, and say, and your saying will be listened to; intercede, and your intercession will be accepted.' Then I will raise my head, and I will glorify and praise my Lord with a saying(i.e. invocation) He will teach me, and then I will intercede, Allah will fix a limit for me (i.e., certain type of people for whom I may intercede), and I will take them out of the (Hell) Fire and let them enter Paradise. Then I will come back (to Allah) and fall in prostration, and will do the same for the third and fourth times till no-one remains in the (Hell) Fire except those whom the Qur'an has imprisoned therein. (The sub-narrator, Qatada used to say at that point, ...those upon whom eternity (in Hell) has been imposed.) (See Hadith No. 3, Vol 6).

":"ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوعوانہ نے ، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا ۔ اس وقت لوگ کہیں گے کہ اگر ہم اپنے رب کے حضور میں کسی کی شفاعت لے جائیں تو نفع بخش ثابت ہو سکتی ہے ۔ ممکن ہے ہم اپنی اس حالت سے نجات پا جائیں ۔ چنانچہ لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے آپ ہی وہ بزرگ نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ کے اندر اپنی چھپائی ہوئی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا ، آپ ہمارے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کریں ۔ وہ کہیں گے کہ میں تو اس لائق نہیں ہوں ، پھر وہ اپنی لغزش یاد کریں گے اور کہیں گے کہ نوح کے پاس جاؤ ، وہ سب سے پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بھیجا ۔ لوگ نوح کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں ۔ وہ اپنی لغزش کا ذکر کریں گے اور کہیں کہ تم ابراہیم کے پاس جاؤ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا تھا ۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن یہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں ، اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ تم لوگ موسیٰ کے پاس جاؤ جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا ۔ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں ، اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ عیسیٰ کے پاس جاؤ ۔ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے ، لیکن یہ بھی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ کیونکہ ان کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں ۔ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے ۔ اس وقت میں اپنے رب سے ( شفاعت کی ) اجازت چاہوں گا اور سجدہ میں گرجاؤں گا ۔ اللہ تعالیٰ جتنی دیر تک چاہے گا مجھے سجدہ میں رہنے دے گا ۔ پھر کہا جائے گا کہ اپنا سراٹھالو ، مانگو ، دیا جائے گا ، کہو ، سنا جائے گا ، شفاعت کرو ، شفاعت قبول کی جائے گی ۔ میں اپنے رب کی اس وقت ایسی حمد بیان کروں گا کہ جو اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا ۔ پھر شفاعت کروں گا اور میرے لیے حد مقرر کر دی جائے گی اور میں لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دوں گا اور اسی طرح سجدہ میں گرجاؤں گا ، تیسری یا چوتھی مرتبہ جہنم میں صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روکا ہے ( یعنی جن کے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا ذکر قرآن میں صراحت کے ساتھ ہے ) قتادہ رحمہ اللہ اس موقع پر کہا کرتے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن پر جہنم ہمیشہ رہنا واجب ہو گیا ہے ۔

شرح الحديث من إرشاد الساري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،   
[ قــ :6224 ... غــ : 6565 ]
- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ - رضى الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: «يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُونَ، لَوِ اسْتَشْفَعْنَا عَلَى رَبِّنَا حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ: أَنْتَ الَّذِى خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَأَمَرَ الْمَلاَئِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، فَاشْفَعْ لَنَا عِنْدَ رَبِّنَا فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ وَيَقُولُ ائْتُوا نُوحًا أَوَّلَ رَسُولٍ بَعَثَهُ اللَّهُ فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ، ائْتُوا إِبْرَاهِيمَ الَّذِى اتَّخَذَهُ اللَّهُ خَلِيلاً، فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ، ائْتُوا مُوسَى الَّذِى كَلَّمَهُ اللَّهُ فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ فَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ، ائْتُوا عِيسَى فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ ائْتُوا مُحَمَّدًا -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَقَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ فَيَأْتُونِى فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّى، فَإِذَا رَأَيْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِى مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ يُقَالُ: ارْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَهْ وَقُلْ يُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَرْفَعُ رَأْسِى فَأَحْمَدُ رَبِّى بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِى، ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِى حَدًّا ثُمَّ أُخْرِجُهُمْ مِنَ النَّارِ، وَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ ثُمَّ أَعُودُ، فَأَقَعُ سَاجِدًا مِثْلَهُ فِى الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ حَتَّى مَا بَقِىَ فِى النَّارِ، إِلاَّ مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ» وَكَانَ قَتَادَةُ يَقُولُ: عِنْدَ هَذَا أَىْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ.

وبه قال: ( حدّثنا مسدد) هو ابن مسرهد قال: ( حدّثنا أبو عوانة) الوضاح بن عبد الله اليشكري ( عن قتادة) بن دعامة ( عن أنس -رضي الله عنه-) أنه ( قال: قال رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) :
( يجمع الله الناس يوم القيامة) ولأبي ذر عن المستملي: جمع الله بلفظ الماضي والأول هو المعتمد وفي حديث أبي هريرة يجمع الله الناس الأولين والآخرين في صعيد واحد يسمعهم الداعي وينفذهم الصبر وتدنو الشمس من رؤوسهم فيشتد عليهم حرّها ( فيقولون) من الضجر والجزع مما هم فيه ( لو استشفعنا على) بالعين ضمن استشفع معنى الاستعانة يعني لو استعنا على ( ربنا) لأن الاستشفاع طلب الشفاعة وهي انضمام الأدنى إلى الأعلى ليستعين به على ما يرويه وفي رواية هشام الدستوائي السابقة في سورة البقرة إلى ربنا ( حتى يريحنا) بالحاء المهملة من الإراحة أي يخلصنا ( من مكاننا) وما فيه من الأهوال ولو هي المتضمنة للتمني والطلب فلا تحتاج إلى جواب أو جوابها محذوف ( فيأتون آدم) عليه السلام وقدموه لأنه الأول ( فيقولون) له بعثًا له على أن يشفع لهم ( أنت الذي خلقك الله بيده ونفخ فيك من روحه) زاد همام في روايته الآتية إن شاء الله تعالى في كتاب التوحيد وأسكنك جنته وعلمك أسماء كل شيء ووضع شيء موضع أشياء أي المسميات كقوله تعالى: { وعلم آدم الأسماء كلها} [البقرة: 31] أي أسماء المسميات ( وأمر الملائكة) ولأبي ذر عن الحموي والمستملي: وأمر ملائكته ( فسجدوا لك) سجود خضوع لا سجود عبادة ( فاشفع لنا عند ربنا) حتى يريحنا من مكاننا هذا ( فيقول) آدم ( لست هناكم) بضم الهاء وتخفيف النون أي لست في المكان والمنزل الذي تحسبونني يريد به مقام الشفاعة ( ويذكر خطيئته التي أصابها) وهي أكله من الشجرة التي نهي عنها قاله تواضعًا واعتذارًا من التقاعد عن الإجابة وإعلامًا بأنها لم تكن له ( ويقول) لهم ( ائتوا نوحًا) عليه السلام وسقط ويقول لأبي ذر ( أول رسول بعثه الله) أي بعد آدم وشيث إدريس أو الثلاثة كانوا أنبياء ولم يكونوا رسلاً نعم كان آدم مرسلاً وأنزل على شيث الصحف وهو من علامة الإرسال أو رسالة آدم لبنيه وهم موحدون ليعلمهم شريعته ورسالة نوح للكفار ليدعوهم إلى التوحيد ( فيأتونه فيقول) لهم ( لست هناكم ويذكر خطيئته) وهي سؤاله ربه ما ليس له به علم وهو قوله: { رب إن ابني من أهلي} [هود: 45] ( ائتوا إبراهيم الذي اتخذه الله خليلاً فيأتونه فيقول) لهم ( لست هناكم ويذكر خطيئته) زاد مسلم التي أصاب فيستحيي من ربه وفي رواية همام: إني كذبت ثلاث كذبات وزاد سفيان قوله { إني سقيم} [الصافات: 89] وقوله: { بل فعله كبيرهم} [الأنبياء: 63] قوله لامرأته: أخبريه أني أخوك، وهذه الثلاثة من المعاريض إلا أنهما لما كانت صورتها صورة الكذب أشفق منها ( ائتوا موسى الذي كلمه الله) ولأبي ذر عن الحموي والمستملي كلم الله ( فيأتونه فيقول) لهم ( لست هناكم) وسقط لأبي ذر قوله فيقول لست هناكم ( فيذكر خطيئته) وهي أنه قتل نفسًا لم يؤمر بقتلها ( ائتوا عيسى فيأتونه فيقول) لهم ( لست هناكم) ولم يذكر ذنبًا لكن وقع في رواية أبي نضرة عن أبي سعيد: إني عبدت من دون الله رواه مسلم ( ائتوا محمدًا -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) وفي كشف علوم الآخرة للغزالي: إن بين إتيان أهل الموقف آدم وإتيانهم نوحًا ألف سنة وكذا بين كل نبي ونبي.
قال في الفتح: ولم أقف لذلك على أصل ولقد أكثر من هذا الكتاب من إيراد أحاديث لا أصل لها فلا يغتر بشيء منها انتهى.

وتعقبه العيني بأن جلالة قدر الغزالي تنافي ما ذكره وعدم وقوفه على أصل لذلك لا يستلزم
نفي وقوف غيره لذلك على أصل فإنه لم يحط علمًا بكل ما ورد حتى يدعي هذه الدعوى انتهى.

وأجاب في انتقاض الاعتراض بأن جلالة الغزالي لا تنافي أنه يحسن الظن ببعض الكتب فينقل منها ويكون ذلك المنقول غير ثابت كما وقع له ذلك في الإحياء في نقله من قوت القلوب كما نبه على ذلك غير واحد من الحفّاظ وقد اعترف هو بأن بضاعته في الحديث مزجاة.
قال ابن حجر: ولم أدّع أني أحطت علمًا وإنما نفيت اطّلاعي وإطلاقي في الثاني محمول على تقييدي في الأول والحكم لا يثبت بالاحتمال فلو كان هذا المعترض يعني العيني اطّلع على شيء من ذلك يخالف قولي لأبرزه وتبجح به انتهى.

وقد ألهم الله تعالى الناس سؤال آدم ومن بعده في الابتداء ولم يلهموا سؤال نبينا محمد -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- مع أن فيهم من سمع هذا الحديث منه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وتحقق اختصاصه بذلك إظهارًا لفضيلة نبينا -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ورفعة منزلته وكمال قربه وتفضيله على جميع المخلوقين.
( فقد غفر له ما تقدّم من ذنبه وما تأخر) ما وقع عن سهو وتأويل أو ما كان الأولى تركه أو أنه مغفور له غير مؤاخذ لو وقع منه.
قال رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: ( فيأتوني) زاد في رواية سعيد بن أبي هلال المذكورة في التوحيد فأقول أنا لها أنا لها ( فأستأذن على ربي) زاد همام في داره فيؤذن لي أي في دخول الدار وهي الجنة وأضيفت إليه تعالى إضافة تشريف ( فإذا رأيته) تعالى ( وقعت) له حال كوني ( ساجدًا) وفي رواية أبي بكر عند أبي عوانة فآتي تحت العرش فأقع ساجدًا لربي ( فيدعني) في السجود ( ما شاء الله) زاد مسلم أن يدعني وسقطت الجلالة الشريفة لأبي ذر وفي حديث عبادة بن الصامت عند الطبراني فإذا رأيته خررت له ساجدًا شكرًا له ( ثم يقال ارفع) ولأبي ذر ثم يقال لي ارفع ( رأسك) وفي رواية النضر بن أنس عند أحمد فأوحى الله إلى جبريل أن اذهب إلى محمد فقل له ارفع رأسك ( سل تعطه) بغير واو ولا همز ( قل يسمع) بغير واو أيضًا نعم في اليونينية وقل بإثباتها ( واشفع تشفع) أي تقبل شفاعتك ( فأرفع رأسي فأحمد رب بتحميد يعلمني) وفي رواية ثابت عند أحمد بمحامد لم يحمده بها أحد قبلي ولا يحمده أحد بعدي ( ثم اشفع) في الإراحة من كرب الموقف ثم في الإخراج من النار بعد التحوّل من الموقف والمرور على الصراط وسقوط من يسقط حينئذ في النار ( فيحدّ لي) بفتح التحتية وضم الحاء المهملة أي يبين لي كل طور من أطوار الشفاعة ( حدًّا) أقف عنده فلا أتعداه مثل أن يقول شفعتك فيمن أخلّ بالجماعة ثم فيمن أخلّ بالصلاة ثم فيمن شرب الخمر ثم فيمن زنى وعلى هذا الأسلوب قاله في شرح المشكاة عن التوربشتي.
قال في الفتح: والذي يدل عليه سياق الأخبار أن المراد به تفصيل مراتب المخرجين في الأعمال الصالحة كما وقع عند أحمد عن يحيى القطان عن سعيد بن أبي عروبة عن قتادة في هذا الحديث بعينه ( ثم أخرجهم من النار وأدخلهم الجنة ثم أعود فأقع) حال كوني ( ساجدًا مثله) أي مثل الأول ( في) المرة ( الثالثة أو الرابعة) بالشك من الراوي ( حتى) أقول يا رب ( ما بقي) ولأبي ذر عن الحموي والمستملي ما يبقى ( في النار إلا من حبسه) فيها ( القرآن وكان) بالواو
ولأبي ذر فكان ( قتادة) بن دعامة ( يقول عند هذا) القول وهو من حبسه القرآن ( أي وجب عليه الخلود) بنحو قول الله تعالى { إن الله لا يغفر أن يشرك به} [النساء: 48] والحديث سبق في أول سورة البقرة.