هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
4721 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ اليَمَامَةِ ، فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ عِنْدَهُ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ : إِنَّ القَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ اليَمَامَةِ بِقُرَّاءِ القُرْآنِ ، وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ القَتْلُ بِالقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ ، فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنَ القُرْآنِ ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ القُرْآنِ ، قُلْتُ لِعُمَرَ : كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ عُمَرُ : هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ ، فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِذَلِكَ ، وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَى عُمَرُ ، قَالَ زَيْدٌ : قَالَ أَبُو بَكْرٍ : إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لاَ نَتَّهِمُكَ ، وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَتَتَبَّعِ القُرْآنَ فَاجْمَعْهُ ، فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ القُرْآنِ ، قُلْتُ : كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ ، قَالَ : هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ ، فَلَمْ يَزَلْ أَبُو بَكْرٍ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، فَتَتَبَّعْتُ القُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ العُسُبِ وَاللِّخَافِ ، وَصُدُورِ الرِّجَالِ ، حَتَّى وَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ التَّوْبَةِ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ ، { لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ } حَتَّى خَاتِمَةِ بَرَاءَةَ ، فَكَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ، ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ ، ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
4721 حدثنا موسى بن إسماعيل ، عن إبراهيم بن سعد ، حدثنا ابن شهاب ، عن عبيد بن السباق ، أن زيد بن ثابت رضي الله عنه ، قال : أرسل إلي أبو بكر مقتل أهل اليمامة ، فإذا عمر بن الخطاب عنده ، قال أبو بكر رضي الله عنه : إن عمر أتاني فقال : إن القتل قد استحر يوم اليمامة بقراء القرآن ، وإني أخشى أن يستحر القتل بالقراء بالمواطن ، فيذهب كثير من القرآن ، وإني أرى أن تأمر بجمع القرآن ، قلت لعمر : كيف تفعل شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قال عمر : هذا والله خير ، فلم يزل عمر يراجعني حتى شرح الله صدري لذلك ، ورأيت في ذلك الذي رأى عمر ، قال زيد : قال أبو بكر : إنك رجل شاب عاقل لا نتهمك ، وقد كنت تكتب الوحي لرسول الله صلى الله عليه وسلم ، فتتبع القرآن فاجمعه ، فوالله لو كلفوني نقل جبل من الجبال ما كان أثقل علي مما أمرني به من جمع القرآن ، قلت : كيف تفعلون شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ ، قال : هو والله خير ، فلم يزل أبو بكر يراجعني حتى شرح الله صدري للذي شرح له صدر أبي بكر وعمر رضي الله عنهما ، فتتبعت القرآن أجمعه من العسب واللخاف ، وصدور الرجال ، حتى وجدت آخر سورة التوبة مع أبي خزيمة الأنصاري لم أجدها مع أحد غيره ، { لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم } حتى خاتمة براءة ، فكانت الصحف عند أبي بكر حتى توفاه الله ، ثم عند عمر حياته ، ثم عند حفصة بنت عمر رضي الله عنه
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated Zaid bin Thabit:

Abu Bakr As-Siddiq sent for me when the people! of Yamama had been killed (i.e., a number of the Prophet's Companions who fought against Musailama). (I went to him) and found `Umar bin Al- Khattab sitting with him. Abu Bakr then said (to me), `Umar has come to me and said: Casualties were heavy among the Qurra' of the! Qur'an (i.e. those who knew the Qur'an by heart) on the day of the Battle of Yalmama, and I am afraid that more heavy casualties may take place among the Qurra' on other battlefields, whereby a large part of the Qur'an may be lost. Therefore I suggest, you (Abu Bakr) order that the Qur'an be collected. I said to `Umar, How can you do something which Allah's Apostle did not do? `Umar said, By Allah, that is a good project. `Umar kept on urging me to accept his proposal till Allah opened my chest for it and I began to realize the good in the idea which `Umar had realized. Then Abu Bakr said (to me). 'You are a wise young man and we do not have any suspicion about you, and you used to write the Divine Inspiration for Allah's Messenger (ﷺ). So you should search for (the fragmentary scripts of) the Qur'an and collect it in one book). By Allah If they had ordered me to shift one of the mountains, it would not have been heavier for me than this ordering me to collect the Qur'an. Then I said to Abu Bakr, How will you do something which Allah's Messenger (ﷺ) did not do? Abu Bakr replied, By Allah, it is a good project. Abu Bakr kept on urging me to accept his idea until Allah opened my chest for what He had opened the chests of Abu Bakr and `Umar. So I started looking for the Qur'an and collecting it from (what was written on) palmed stalks, thin white stones and also from the men who knew it by heart, till I found the last Verse of Surat at-Tauba (Repentance) with Abi Khuza`ima Al-Ansari, and I did not find it with anybody other than him. The Verse is: 'Verily there has come unto you an Apostle (Muhammad) from amongst yourselves. It grieves him that you should receive any injury or difficulty..(till the end of Surat-Baraa' (at-Tauba) (9.128-129) Then the complete manuscripts (copy) of the Qur'an remained with Abu Bakr till he died, then with `Umar till the end of his life, and then with Hafsa, the daughter of `Umar.

":"ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا ، ان سے عبید بن سباق نے اور ان سے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہجنگ یمامہ میں ( صحابہ کی بہت بڑی تعداد کے ) شہید ہو جانے کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا ۔ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ یمامہ کی جنگ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہو گئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اسی طرح کفار کے ساتھ دوسری جنگوں میں بھی قراء قرآن بڑی تعداد میں قتل ہو جائیں گے اور یوں قرآن کے جاننے والوں کی بہت بڑی تعداد ختم ہو جائے گی ۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ آپ قرآن مجید کو ( باقاعدہ کتابی شکل میں ) جمع کرنے کا حکم دے دیں ۔ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اپنی زندگی میں ) نہیں کیا ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ کی قسم یہ تو ایک کارخیر ہے ۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ بات مجھ سے باربار کہتے رہے ۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ میں میرا بھی سینہ کھول دیا اور اب میری بھی وہیں رائے ہو گئی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تھی ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا آپ ( زید رضی اللہ عنہ ) جوان اور عقلمند ہیں ، آپ کو معاملہ میں متہم بھی نہیں کیا جا سکتا اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھتے بھی تھے ، اس لئے آپ قرآن مجید کو پوری تلاش اور محنت کے ساتھ ایک جگہ جمع کر دیں ۔ اللہ کی قسم ! اگر یہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کو بھی اس کی جگہ سے دوسری جگہ ہٹانے کے لئے کہتے تو میرے لئے یہ کام اتنا مشکل نہیں تھا جتنا کہ ان کا یہ حکم کہ میں قرآن مجید کو جمع کر دوں ۔ میں نے اس پر کہا کہ آپ لوگ ایک ایسے کام کو کرنے کی ہمت کیسے کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہیں کیا تھا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ، اللہ کی قسم ، یہ ایک عمل خیر ہے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ جملہ برابر دہراتے رہے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا بھی ان کی اور عمر رضی اللہ عنہ کی طرح سینہ کھول دیا ۔ چنانچہ میں نے قرآن مجید ( جو مختلف چیزوں پر لکھا ہوا موجود تھا ) کی تلاش شروع کر دی اور قرآن مجید کو کھجور کی چھلی ہوئی شاخوں ، پتلے پتھروں سے ، ( جن پر قرآن مجید لکھا گیا تھا ) اور لوگوں کے سینوں کی مدد سے جمع کرنے لگا ۔ سورۃ التوبہ کی آخری آیتیں مجھے ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس لکھی ہوئی ملیں ، یہ چند آیات مکتوب شکل میں ان کے سوا اور کسی کے پاس نہیں تھیں لقد جاء كم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم‏ سے سورۃ براۃ ( توبہ ) کے خاتمہ تک ۔ جمع کے بعد قرآن مجید کے یہ صحیفے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ تھے ۔ پھر ان کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب تک وہ زندہ رہے اپنے ساتھ رکھا پھر وہ ام المؤمنین حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رہے ۔

شرح الحديث من إرشاد الساري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،    باب جَمْعِ الْقُرْآنِ
( باب جمع القرآن) في الصحف ثم جمع تلك الصحف في المصحف بعد النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وإنما ترك النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- جمعه في مصحف واحد لأن النسخ كان يرد على بعضه فلو جمعه ثم رفعت تلاوة بعضه لأدى إلى الاختلاف والاختلاط فحفظه الله تعالى في القلوب إلى انقضاء زمن النسخ فكان التأليف في الزمن النبوي والجمع في الصحف في زمن الصديق والنسخ في المصاحف في زمن عثمان وقد كان القرآن كله مكتوبًا في عهده -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لكنه غير مجموع في موضع واحد ولا مرتب السور.


[ قــ :4721 ... غــ : 4986 ]
- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ -رضي الله عنه- قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، فَإِذَا عُمَرُ بْنُ
الْخَطَّابِ عِنْدَهُ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ -رضي الله عنه-: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِى فَقَالَ: إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ، وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنَ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ.
.

قُلْتُ لِعُمَرَ: كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-؛ قَالَ عُمَرُ: هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ.
فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِذَلِكَ وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَى عُمَرُ قَالَ زَيْدٌ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لاَ نَتَّهِمُكَ، وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ.
فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ.
.

قُلْتُ كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-؟ قَالَ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ.
فَلَمْ يَزَلْ أَبُو بَكْرٍ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ -رضي الله عنهما-.
فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الْعُسُبِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ، حَتَّى وَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ التَّوْبَةِ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرَهُ { لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ} [التوبة: 128] حَتَّى خَاتِمَةِ بَرَاءَةَ، فَكَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ، ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ -رضي الله عنه-.

وبه قال: ( حدّثنا موسى بن إسماعيل) التبوذكي ( عن إبراهيم بن سعد) بسكون العين الزهري العوفي أنه قال: ( حدّثنا ابن شهاب) محمد بن مسلم الزهري ( عن عبيد بن السباق) بضم العين من غير إضافة لشيء والسباق بفتح السين المهملة وتشديد الموحدة المدني التابعي ( أن زيد بن ثابت -رضي الله عنه- قال: أرسل إليّ) بتشديد الياء ( أبو بكر) الصديق -رضي الله عنه- ( مقتل) أي عقب مقتل ( أهل اليمامة) أي من قتل بها من الصحابة في وقعة مسيلمة الكذاب لما ادّعى النبوّة وقوي أمره بعد وفاته عليه الصلاة والسلام بارتداد كثير من العرب فخذله الله وقتله بالجيش الذي جهزه أبو بكر -رضي الله عنه- وقتل بسبب ذلك من الصحابة قيل سبعمائة أو أكثر ( فإذا عمر بن الخطاب) -رضي الله عنه- ( عنده قال أبو بكر -رضي الله عنه-: إن عمر أتاني فقال: إن القتل قد استحرّ) بالسين الساكنة والفوقية والحاء المهملة والراء المشددة المفتوحات اشتد وكثر ( يوم) وقعة ( اليمامة بقرّاء القرآن) وسمى منهم في رواية سفيان بن عيينة عن الزهري في فوائد الدير عاقولي سالمًا مولى حذيفة ( وإني أخشى أن يستحرّ) بلفظ المضارع أي يشتد ولأبي ذر إن استحرّ ( القتل) اشتد ( بالقراء بالمواطن) أي في الأماكن التي يقع فيها القتال مع الكفار ( فيذهب كثير من القرآن) بقتل حفظته والفاء في فيذهب للتعقيب ( وإني أرى أن تأمر بجمع القرآن) قال أبو بكر لزيد: ( قلت لعمر: كيف تفعل شيئًا لم يفعله) ولأبي ذر عن الحموي والمستملي لم يفعل ( رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-.
قال عمر: هذا والله خير)
ردّ لقول أبي بكر كيف تفعل شيئًا لم يفعله رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وإشعار بأن من البدع ما هو حسن وخير ( فلم يزل عمر يراجعني) في ذلك ( حتى شرح الله صدري لذلك) الذي شرح له صدر عمر ( ورأيت في ذلك الذي رأى عمر.
قال زيد، قال أبو بكر)
لي يا زيد ( إنك
رجل شاب)
أشار به إلى حدّة نظره وبُعده عن النسيان وضبطه وإتقانه ( عاقل لا نتهمك) أشار إلى عدم كذبه وأنه صدوق وفيه تمام معرفته وغزارة علومه وشدّة تحقيقه وتمكنه من هذا الشأن ( وقد كنت تكتب الوحي لرسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فتتبع القرآن فاجمعه) بصيغتي الأمر ( فوالله لو كلفوني نقل جبل من الجبال ما كان) ثقله ( أثقل عليّ مما أمرني به) أبو بكر ( من جمع القرآن) .

فإن قلت: كيف عبّر أولًا بقوله: لو كلفوني وأفرده في قوله مما أمرني به؟ أجيب: بأنه جمع باعتبار أبي بكر ومن وافقه وأفرد باعتبار أنه الآمر بذلك وحده وإنما قال زيد ذلك خشية من التقصير في ذلك لكن الله تعالى يسّره له تصديقًا لقوله تعالى: { ولقد يسّرنا القرآن للذكر} [القمر: 54] .

( قلت) لهم: ( كيف تفعلون شيئًا لم يفعله رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-؟ قال) أبو بكر ( هو) أي جمعه ( والله خير فلم يزل أبو بكر يراجعني حتى شرح الله صدري للذي شرح له صدر أبي بكر وعمر -رضي الله عنهما- فتتبعت القرآن) حال كوني ( أجمعه) وقت التتبع مما عندي وعند غيري ( من العسب) بضم العين والسين المهملتين ثم الموحدة جريد النخل العريض العاري عن الخوص ( واللخاف) بكسر اللام وفتح الخاء المعجمة وبعد الألف فاء الحجارة الرقاق أو هي الخزف بالخاء والزاي المعجمتين والفاء ( وصدور الرجال) حيث لا يجد ذلك مكتوبًا أو الواو بمعنى مع أي أكتبه من المكتوب الموافق للمحفوظ في الصدور.

وعند أبي داود أن عمر -رضي الله عنه- قام فقال: من كان تلقى من رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- شيئًا من القرآن فليأت به وكانوا يكتبون ذلك في الصحف والألواح والعسب قال: وكان لا يقبل من أحد شيئًا حتى يشهد شاهدان، وهذا يدل على أن زيدًا كان لا يكتفي بمجرد وجدانه مكتوبًا حتى يشهد به مَن تلقّاه سماعًا مع كون زيد كان يحفظه فكان يفعل ذلك مبالغة في الاحتياط، ولأبي داود أيضًا من طريق هشام بن عروة عن أبيه أن أبا بكر قال لعمر ولزيد: اقعدا على باب المسجد فمن جاءكما بشاهدين على شيء من كتاب الله فاكتباه ورجاله ثقات مع انقطاعه، ولعل المراد بالشاهدين الحفظ والكتاب أو المراد أنهما يشهدان أن ذلك المكتوب كتب بين يدي رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أو أنهما يشهدان أن ذلك من الوجوه التي نزل بها القرآن وكان غرضهم أن لا يكتب إلاّ من عين ما كتب بين يديه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لا من مجرد اللفظ والمراد بصدور الرجال الذين جمعوا القرآن وحفظوه في صدورهم كاملًا في حياته -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- كأُبيّ بن كعب ومعاذ بن جبل.

( حتى وجدت آخر سورة التوبة مع أبي خزيمة) بن أوس بن يزيد بن حرام وأبو خزيمة مشهور بكنيته لا يعرف اسمه وشهد بدرًا وما بعدها ( الأنصاري) النجاري ( لم أجدها) مكتوبة ( مع أحد غيره { لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم} [التوبة: 128] حتى خاتمة براءة) ولا يلزم من عدم وجدانه إياها حينئذٍ أن لا تكون تواترت عند مَن تلقّاها من النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وإنما كان زيد يطلب التثبّت عمن تلقاها بغير واسطة ولقد اجتمع في هذه الآية كما قاله الخطابي زيد بن ثابت، وأبو
خزيمة، وعمر، وسقط قوله: { عزيز عليه ما عنتم} لأبي ذر.
( فكانت الصحف) التي جمع فيها زيد بن ثابت القرآن ( عند أبي بكر حتى توفاه الله ثم عند عمر حياته) حتى توفاه الله ( ثم عند حفصة بنت عمر -رضي الله عنه-) وعنها لأنها كانت وصية عمر فاستمر ما كان عنده عندها إلى أن شرع عثمان في كتابة المصحف.

وهذا الحديث سبق في تفسير براءة.