هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
1301 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ انْطَلَقَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ ، حَتَّى وَجَدُوهُ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ ، وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ الحُلُمَ ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ ، ثُمَّ قَالَ لِابْنِ صَيَّادٍ : تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ ، فَقَالَ : أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الأُمِّيِّينَ ، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ فَرَفَضَهُ وَقَالَ : آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ فَقَالَ لَهُ : مَاذَا تَرَى ؟ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ : يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خُلِّطَ عَلَيْكَ الأَمْرُ ثُمَّ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ : هُوَ الدُّخُّ ، فَقَالَ : اخْسَأْ ، فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنْ يَكُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْهُ فَلاَ خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ وَقَالَ سَالِمٌ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ : انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى النَّخْلِ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ ، وَهُوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ ابْنُ صَيَّادٍ ، فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ - يَعْنِي فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْزَةٌ أَوْ زَمْرَةٌ - فَرَأَتْ أمُّ ابْنِ صَيّادٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ ، فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ : يَا صَافِ - وَهُوَ اسْمُ ابْنِ صَيَّادٍ - هَذَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ ، وَقَالَ شُعَيْبٌ فِي حَدِيثِهِ : فَرَفَصَهُ رَمْرَمَةٌ - أَوْ زَمْزَمَةٌ - وَقَالَ إِسْحَاقُ الكَلْبِيُّ ، وَعُقَيْلٌ : رَمْرَمَةٌ ، وَقَالَ مَعْمَرٌ : رَمْزَةٌ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  يعني في قطيفة له فيها رمزة أو زمرة فرأت أم ابن صياد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وهو يتقي بجذوع النخل ، فقالت لابن صياد : يا صاف وهو اسم ابن صياد هذا محمد صلى الله عليه وسلم ، فثار ابن صياد ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم : لو تركته بين ، وقال شعيب في حديثه : فرفصه رمرمة أو زمزمة وقال إسحاق الكلبي ، وعقيل : رمرمة ، وقال معمر : رمزة
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

عن ابْنِ عُمَر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّ عُمَرَ انْطَلَقَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ ، حَتَّى وَجَدُوهُ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ ، وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ الحُلُمَ ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ ، ثُمَّ قَالَ لِابْنِ صَيَّادٍ : تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ ، فَقَالَ : أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الأُمِّيِّينَ ، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ فَرَفَضَهُ وَقَالَ : آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ فَقَالَ لَهُ : مَاذَا تَرَى ؟ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ : يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خُلِّطَ عَلَيْكَ الأَمْرُ ثُمَّ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ : هُوَ الدُّخُّ ، فَقَالَ : اخْسَأْ ، فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنْ يَكُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْهُ فَلاَ خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ.

Ibn 'Umar () dit: «'Umar se rendit avec le Prophète () et un groupe de musulmans chez ben Sayyâd. Ils le trouvèrent en train de jouer avec d'autres enfants près du fort des banû Maghâla. A cette époque, ben Sayyâd approchait de l'âge de la puberté. Il ne s'aperçut de l'arrivée du Prophète () que lorsque celuici, l'ayant touché de la main, lui dit: Reconnaistu que je suis le Messager d'Allah? Ben Sayyâd le regarda et lui répondit: Je reconnais que tu es le Messager des 'Ummiyûn... Et toi, interrogeatil de son côté, reconnaistu que je suis le messager d'Allah? Sur ce, sans insister davantage, le Prophète () reprit: Je crois en Allah et en ses messagers. Mais toi, qu'en distu? — II m'arrive de recevoir le véridique et le menteur. — C'est qu'on t'a rendu la chose confuse, riposta le Prophète (), eh bien! je pense en moimême à une chose que je te cache. — C'est le dukh...! dit ben Sayyâd. — Assez! s'écria le Prophète (), tu ne pourras guère dépasser ta prédestinée. «'Umar () intervint alors: Laissemoi, ô Messager d'Allah, lui trancher la tête. — Si c'est vraiment lui [l'Antéchrist], répondit le Prophète (), tu ne pourras jamais l'abattre. Et s'il s'agit d'une autre personne, tu n'auras aucun bien à le tuer. »

":"ہم سے عبدان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہیں یونس نے ‘ انہیں زہری نے ‘ کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہعمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ دوسرے اصحاب کی معیت میں ابن صیاد کے پاس گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ بنو مغالہ کے مکانوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا ملا ۔ ان دنوں ابن صیاد جوانی کے قریب تھا ۔ اسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی کوئی خبر ہی نہیں ہوئی ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تو اسے معلوم ہوا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن صیاد ! کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ ابن صیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ کر بولا ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھوں کے رسول ہیں ۔ پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا ۔ کیا آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ میں بھی اللہ کا رسول ہوں ؟ یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا اور فرمایا میں اللہ اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لایا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تجھے کیا دکھائی دیتا ہے ؟ ابن صیاد بولا کہ میرے پاس سچی اور جھوٹی دونوں خبریں آتی ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تو تیرا سب کام گڈمڈ ہو گیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا اچھا میں نے ایک بات دل میں رکھی ہے وہ بتلا ۔ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الدخان کی آیت کا تصور کیا «فارتقب يوم تاتی السماء بدخان مبين» ) ابن صیاد نے کہا وہ «دخ» ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چل دور ہو تو اپنی بساط سے آگے کبھی نہ بڑھ سکے گا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ ! مجھ کو چھوڑ دیجئیے میں اس کی گردن مار دیتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اگر یہ دجال ہے تو ، تو اس پر غالب نہ ہو گا اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کا مار ڈالنا تیرے لیے بہتر نہ ہو گا ۔ اور سالم نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہتے تھے پھر ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ دونوں مل کر ان کھجور کے درختوں میں گئے ۔ جہاں ابن صیاد تھا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ابن صیاد آپ کو نہ دیکھے اور ) اس سے پہلے کہ وہ آپ کو دیکھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غفلت میں اس سے کچھ باتیں سن لیں ۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھ لیا ۔ وہ ایک چادر اوڑھے پڑا تھا ۔ کچھ گن گن یا پھن پھن کر رہا تھا ۔ لیکن مشکل یہ ہوئی کہ ابن صیاد کی ماں نے دور ہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے تنوں میں چھپ چھپ کر جا رہے تھے ۔ اس نے پکار کر ابن صیاد سے کہہ دیا صاف ! یہ نام ابن صیاد کا تھا ۔ دیکھو محمد آن پہنچے ۔ یہ سنتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش اس کی ماں ابن صیاد کو باتیں کرنے دیتی تو وہ اپنا حال کھولتا ۔ شعیب نے اپنی روایت میں «رمرمة فرفصه» اور عقیل نے «رمرمة‏» نقل کیا ہے اور معمر نے «رمزة‏» کہا ہے ۔

Ibn 'Umar () dit: «'Umar se rendit avec le Prophète () et un groupe de musulmans chez ben Sayyâd. Ils le trouvèrent en train de jouer avec d'autres enfants près du fort des banû Maghâla. A cette époque, ben Sayyâd approchait de l'âge de la puberté. Il ne s'aperçut de l'arrivée du Prophète () que lorsque celuici, l'ayant touché de la main, lui dit: Reconnaistu que je suis le Messager d'Allah? Ben Sayyâd le regarda et lui répondit: Je reconnais que tu es le Messager des 'Ummiyûn... Et toi, interrogeatil de son côté, reconnaistu que je suis le messager d'Allah? Sur ce, sans insister davantage, le Prophète () reprit: Je crois en Allah et en ses messagers. Mais toi, qu'en distu? — II m'arrive de recevoir le véridique et le menteur. — C'est qu'on t'a rendu la chose confuse, riposta le Prophète (), eh bien! je pense en moimême à une chose que je te cache. — C'est le dukh...! dit ben Sayyâd. — Assez! s'écria le Prophète (), tu ne pourras guère dépasser ta prédestinée. «'Umar () intervint alors: Laissemoi, ô Messager d'Allah, lui trancher la tête. — Si c'est vraiment lui [l'Antéchrist], répondit le Prophète (), tu ne pourras jamais l'abattre. Et s'il s'agit d'une autre personne, tu n'auras aucun bien à le tuer. »

شرح الحديث من إرشاد الساري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،    باب إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ؟
وَقَالَ الْحَسَنُ وَشُرَيْحٌ وَإِبْرَاهِيمُ وَقَتَادَةُ: إِذَا أَسْلَمَ أَحَدُهُمَا فَالْوَلَدُ مَعَ الْمُسْلِمِ.

وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ -رضي الله عنهما- مَعَ أُمِّهِ مِنَ الْمُسْتَضْعَفِينَ، وَلَمْ يَكُنْ مَعَ أَبِيهِ عَلَى دِينِ قَوْمِهِ.

     وَقَالَ : الإِسْلاَمُ يَعْلُو وَلاَ يُعْلَى.

(باب) بالتنوين (إذا أسلم الصبي فمات) قبل البلوغ (هل يصلّى عليه) أم لا؟ (وهل يعرض على الصبي الإسلام).

(وقال الحسن) البصري، (وشريح) بضم الشين المعجمة مصغرًا، مما أخرجه البيهقي عنهما (و) قال: (إبراهيم) النخعي (وقتادة)، مما وصله عبد الرزاق عنهما، (إذا أسلم أحدهما) أي: أحد الوالدين (فالولد مع المسلم) منهما.

(وكان ابن عباس، رضي الله عنهما: مع أمه) لبابة بنت الحرث الهلالية (من المستضعفين)، وهذا وصله المؤلّف في الباب، بلفظ: كنت أنا وأمي من المستضعفين، وهم الذين أسلموا بمكة، وصدهم المشركون عن الهجرة، فبقوا بين أظهرهم مستضعفين، يلقون منهم الأذى الشديد.
(ولم يكن) أي ابن عباس (مع أبيه على دين قومه) المشركين.
وهذا قاله المصنف تفقهًا، وهو مبني على أن إسلام العباس كان بعد وقعة بدر، والصحيح أنه أسلم عام الفتح، وقدم مع النبي، -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، فشهد الفتح.

(وقال: الإسلام يعلو ولا يعلى) مما وصله الدارقطني مرفوعًا، من حديث ابن عباس، فليس هو معطوفًا على ابن عباس.
نعم، ذكره ابن حزم في المحلى، من طريق حماد بن زيد، عن أيوب، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: إذا أسلمت اليهودية أو النصرانية يفرق بينهما، الإسلام يعلو ولا يعلى.


[ قــ :1301 ... غــ : 1354 ]
- حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ يُونُسَ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ -رضي الله عنهما- أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ انْطَلَقَ مَعَ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي رَهْطٍ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ حَتَّى وَجَدُوهُ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ -وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ الْحُلُمَ- فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ لاِبْنِ صَيَّادٍ: تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الأُمِّيِّينَ.
فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَرَفَضَهُ.

     وَقَالَ : آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ.
فَقَالَ لَهُ: مَاذَا تَرَى؟ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ.
فَقَالَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: خُلِّطَ عَلَيْكَ الأَمْرُ.
ثُمَّ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا.
فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ.
فَقَالَ: اخْسَأْ، فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ.


فَقَالَ عُمَرُ -رضي الله عنه-: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ.
فَقَالَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: إِنْ يَكُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْهُ فَلاَ خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ".
[الحديث 1354 - أطرافه في: 3055، 6173، 6618] .

وبالسند قال: (حدّثنا عبدان) بفتح العين وسكون الموحدة، لقب عبد الله بن عثمان، قال: (أخبرنا عبد الله) بن المبارك (عن يونس) بن يزيد الأيلي (عن الزهري) محمد بن مسلم بن شهاب (قال: أخبرني) بالإفراد (سالم بن عبد الله).

(أن ابن عمر) أباه (رضي الله عنهما، أخبره):
(أن) أباه (عمر) بن الخطاب (انطلق مع النبي، -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، في رهط) قال في الصحاح: رهط الرجل: قومه وقبيلته.
والرهط: ما دون العشرة من الرجال، ولا يكون فيهم امرأة، (قبل) بكسر القاف وفتح الموحدة، أي: جهة (ابن صياد) بفتح الصاد المهملة وبعد المثناة التحتية المشددة ألف ثم دال مهملة، واسمه: صافي، كقاضي، وقيل: عبد الله، وكان من اليهود، وكانوا حلفاء بني النجار، وكان سبب انطلاق النبي، -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، إليه ما رواه أحمد من طريق جابر، قال: ولدت امرأة من اليهود غلامًا ممسوحة عينه، والأخرى طالعة ناتئة، فأشفق النبي، -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، أن يكون هو الدجال.
(حتى وجدوه) أي الرسول ومن معه من الرهط، والضمير المنصوب لابن صياد، ولأبي الوقت من غير اليونينية.
وجده بالإفراد أي: وجد النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ابن صياد، حال كونه (يلعب مع الصبيان عند أطم بني مغالة) بضم الهمزة والطاء، بناء من حجر كالقصر، وقيل، هو الحصن، ويجمع على آطام وبني مغالة، بفتح الميم والغين المعجمة الخفيفة، قبيلة من الأنصار (وقد قارب ابن صياد الحلم) بضم الحاء واللام، أي: البلوغ (فلم يشعر) أي: ابن صياد (حتى ضرب النبي، -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، بيده ثم قال لابن صياد):
(تشهد أني رسول الله؟) بحذف همزة الاستفهام، فيه عرض الإسلام على الصبي الذي لم يبلغ، ومفهومه، أنه لم يصح إسلامه لما عرض -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- الإسلام على ابن صياد، وهو غير بالغ، ففيه مطابقة الحديث لجزأي الترجمة، كليهما.
ولأبي ذر: لابن صائد، بتقديم الألف على التحتية، وكلاهما كان يدعى به (فنظر إليه) -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- (ابن صياد فقال: أشهد أنك رسول الأميين) مشركي العرب، وكانوا لا يكتبون.
أو: نسبة إلى أم القرى، وفيه إشعار بأن اليهود الذين كان منهم ابن صياد كانوا معترفين ببعثة رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، لكن يدّعون أنها مخصوصة بالعرب، وفساد حجتهم واضح، لأنهم إذا أقروا برسالته استحال كذبه.
فوجب تصديقه في دعواه الرسالة إلى كافة الناس.

(فقال ابن صياد للنبي، -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: أتشهد) بإثبات همزة الاستفهام (أني رسول الله؟ فرفضه) النبي، -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، بالضاد المعجمة، أي: ترك سؤاله أن يسلم ليأسه منه، وفي رواية أبي ذر، عن المستملي: فرفصه، بالصاد المهملة.
وقال المازري: لعله: رفسه، بالسين المهملة، أي: ضربه برجله، لكن قال القاضي عياض: لم أجد هذه اللفظة بالصاد في جماهير اللغة.


وقال الخطابي: فرصه، بحذف الفاء، بعد الراء.
وتشديد الصاد المهملة، أي ضعثه حتى ضم بعضه إلى بعض.
ومنه: { بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ} [الصف: 4] وللأصيلي، مما في الفتح: فرقصه، بالقاف بدل الفاء، ولعبدوس: فوقصه بالواو والقاف.

(وقال) عليه الصلاة والسلام: (آمنت بالله وبرسله) قال البرماوي، كالكرماني: مناسبة هذا الجواب لقول ابن صياد: أتشهد أني رسول الله، أنه لما أراد أن يظهر للقوم كذبه في دعواه الرسالة، أخرج الكلام مخرج الإنصاف، أي آمنت برسل الله، فإن كنت رسولاً صادقًا غير ملبس عليك الأمر، آمنت بك.
وإن كنت كاذبًا وخلط عليك الأمر فلا.
لكنك خلط عليك الأمر فاخسأ ثم شرع يسأله عما يرى، (فقال له: ماذا ترى؟) وأراد باستنطاقه إظهار كذبه المنافي لدعواه الرسالة، (قال ابن صياد: يأتيني صادق وكاذب) أي أرى الرؤيا ربما تصدق، وربما تكذب.

قال القرطبي: كان ابن صياد على طريق الكهنة، يخبر بالخبر فيصح تارة، ويفسد أخرى، وفي حديث جابر عند الترمذي، فقال: أرى حقًّا وباطلاً، وأرى عرشًا على الماء.

(فقال) له (النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: خلط عليك الأمر) بضم الخاء المعجمة وتشديد اللام المكسورة، وروي تخفيفها، كما في الفرع وأصله، أي: خلط عليك شيطانك ما يلقي إليك.
(ثم قال له النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: إني قد خبأت لك) أي: أضمرت لك في صدري (خبيئًا) بفتح الخاء المعجمة وكسر الموحدة وسكون المثناة التحتية ثم همزة بوزن فعيل، ولأبي ذر: خبئًا، بفتح الخاء وسكون الموحدة، وإسقاط التحتية أي: شيئًا.
وفي حديث زيد بن حارثة، عند البزار، والطبراني في الأوسط: كان رسول الله، -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، خبأ له سورة الدخان، وكأنه أطلق السورة وأراد بعضها.
فعند أحمد في حديث الباب: وخبأ له { يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ} [الدخان: 10] .

(فقال ابن صياد: هو الدخ) بضم الدال المهملة ثم خاء معجمة.
وفي حديث أبي ذر، عند البزار، وأحمد: فأراد أن يقول: الدخان، فلم يستطع فقال الدخ.
اهـ.
أي: لم يستطع أن يتم الكلمة، ولم يهتد من الآية الكريمة إلا لهذين الحرفين، على عادة الكهان من اختطاف بعض الكلمات من أوليائهم من الجن، أو من هواجس النفس.

(فقال) له عليه الصلاة والسلام: (اخسأ) بهمزة وصل آخره همزة ساكنة، لفظ يزجر به الكلب، ويطرد أي: اسكت صاغرًا مطرودًا (فلن تعدو قدرك) بنصب تعدو: بلن، وفي بعض النسخ، مما حكاه السفاقسي: لن تعد، بغير واو فقيل: حذفت تخفيفًا، أو أنّ: لن، بمعنى: لا، أو: على لغة من يجزم بلن، وهي لغة حكاها الكسائي، وتعدو بالمثناة الفوقية: فقدرك، نصب أو: بالتحتية، فرفع أي: لا يبلغ قدرك أن تطالع بالغيب من قبل الوحي المخصوص بالأنبياء، عليهم الصلاة والسلام، ولا من قبل الإلهام الذي يدركه الصالحون، وإنما قال ابن صياد ذلك، من شيء ألقاه أليه الشيطان، إما لكون النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، تكلم بذلك بينه وبين نفسه، فسمعه الشيطان.
أو

حدّث -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، بعض أصحابه، بما أضمره.
ويدل لذلك قول عمر رضي الله عنه وخبأ له رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
{ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ} [الدخان: 10] .

(فقال عمر) بن الخطاب، (رضي الله عنه: دعني يا رسول الله أضرب عنقه) بجزم أضرب، كما في الفرع جواب الطلب، ويجوز الرفع (فقال النبي، -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-).

(إن يكنه) كذا للكشميهني: يكنه.
بوصل الضمير، وهو خبر كان وضع موضع المنفصل، واسمها مستتر فيه، للباقين إن يكن هو، بانفصاله.
وهو الصحيح، لأن المختار في خبر كان الانفصال.
تقول: كان إياه، وهذا هو الذي اختاره ابن مالك في التسهيل، وشرحه تبعًا لسيبويه، واختار في ألفيته الاتصال.
وعلى رواية الفصل، فلفظ: هو، توكيد للضمير المستتر، وكان تامة أو وضع: هو، موضع إياه، أي: إن يكن إياه.
وفي مرسل عروة، عند الحرث بن أبي أسامة: إن يكن هو الدجال (فلن تسلط عليه) بالجزم في الفرع، على لغة من يجزم لن.
كما مر وفي غيره بالنصب على الأصل.
وفي حديث جابر: فلست بصاحبه، إنما صاحبه عيسى ابن مريم (وإن لم يكنه، فلا خير لك في قتله).

فإن قلت: لِمَ لم يأذن عليه الصلاة والسلام في قتله مع ادعائه النبوة بحضرته؟
أجيب: بأنه كان غير بالغ، أو من جملة أهل العهد، وأنه لم يصرح بدعوى النبوة، وإنما أوهم أنه يدّعي الرسالة، ولا يلزم من دعوى الرسالة دعوى النبوّة، قال الله تعالى: { أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ} الآية [مريم: 83] .

وقد اختلف في أن المسيح الدجال هو: ابن صياد، أو غيره.
ويأتي البحث في ذلك، إن شاء الله تعالى في محله.
والنافي لكونه هو، يحتج: بأن ابن صياد أسلم، وولد له، ودخل مكة والمدينة، ومات بالمدينة.
وأنهم لما أرادوا الصلاة عليه كشفوا عن وجهه حتى رآه الناس، والله أعلم.

ورواة هذا الحديث ما بين: مروزي وأيلي ومدني، وفيه: رواية تابعي عن تابعي عن صحابي، والتحديث والإخبار، والعنعنة، والقول.
وأخرجه أيضًا في: بدء الخلق وأحاديث الأنبياء.
ومسلم في: الفتن.


[ قــ :1301 ... غــ : 1355 ]
- وَقَالَ سَالِمٌ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ -رضي الله عنهما- يَقُولُ: "انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَأُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى النَّخْلِ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ، وَهُوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنِ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ ابْنُ صَيَّادٍ، فَرَآهُ النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَهُوَ مُضْطَجِعٌ، يَعْنِي فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْزَةٌ، أَوْ زَمْرَةٌ -فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، فَقَالَتْ لاِبْنِ صَيَّادٍ: يَا صَافِ -وَهْوَ اسْمُ ابْنِ صَيَّادٍ- هَذَا مُحَمَّدٌ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ.
فَقَالَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ".
.

     وَقَالَ  شُعَيْبٌ فِي حَدِيثِهِ:

فَرَفَصَهُ.
رَمْرَمَةٌ، أَوْ زَمْزَمَةٌ.
.

     وَقَالَ  وعُقَيلٌ: رَمْرَمَةٌ.
.

     وَقَالَ  مَعْمَرٌ: رَمْزَةٌ.
[الحديث 1355 - أطرافه في: 2638، 3033، 3056، 6174] .

(وقال سالم) أي: ابن عبد الله بن عمر، بالإسناد الأول: (سمعت ابن عمر، رضي الله عنهما، يقول): ثم (انطلق بعد ذلك رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-،) أي: بعد انطلاقه هو وعمر في رهط (وأبي بن كعب) معه (إلى النخل التي فيها ابن صياد، وهو) أي: والحال أنه عليه الصلاة والسلام (يختل) بفتح المثناة التحتية وسكون الخاء المعجمة وكسر الفوقية، أي: يستغفل (أن يسمع من ابن صياد شيئًا) من كلامه الذي يقوله في خلوته، ليعلم هو وأصحابه أهو كاهن أو ساحر؟ (قبل أن يراه ابن صياد، فرآه النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، وهو مضطجع) الواو للحال.
(يعني في قطيفة) كساء له خمل، وسقط: يعني في قطيفة، لأبي ذر، الله) أي: لابن صياد (فيها) أي: في القطيفة (رمزة) براء مهملة مفتوحة فميم ساكنة فزاي معجمة (أو زمرة) بالزاي المعجمة ثم الراء المهملة بعد الميم، على الشك في تقديم أحدهما على الآخر ولبعضهم: رمرمة أو زمزمة على الشك، هل هو: براءين مهملتين، أو: بزاءين معجمتين، مع زيادة ميم فيهما.
ومعناها كلها متقارب.
فالأولى من الرمز وهو الإشارة، والثانية من المزمار، والتي، بالمهملتين والميمين، فأصله من الحركة، وهي هنا بمعنى: الصوت الخفي.
وكذا التي بالمعجمتين.
وفي القاموس: أنه تراطن العلوج على أكلهم وهم صموت لا يستعملون لسانًا ولا شفة، لكنه صوت تديره في خياشيمها وحلوقها، فيفهم بعضها عن بعض.

(فرأت أم ابن صياد رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، وهو) أي والحال أنه (يتقي) أي: يخفي نفسه (بجذوع النخل) بضم الجيم والذال المعجمة، حتى لا تراه أم ابن صياد (فقالت لابن صياد) أمه: (يا صاف) بصاد مهملة وفاء مكسورة (-وهو: اسم ابن صياد- هذا محمد -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فثار ابن صياد) بالثاء المثلثة والراء آخره، أي: نهض من مضجعه بسرعة، وللكشميهني: فثاب، بالموحدة بدل الراء، أي: رجع عن الحالة التي كان فيها (فقال النبي، -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: لو تركته) أمه ولم تعلمه بمجيئنا (بين) أي: أظهر لنا من حاله ما نطلع به على حقيقة أمره.

(وقال شعيب) هو: ابن أبي حمزة الحمصي، مما وصله المؤلّف في: الأدب (في حديثه: فرفصه) بفاء بعد الراء فصاد مهملة، كذا في الفرع، وفي نسخة: فرضه، وكذا في رواية أبي ذر، بحذف الفاء وتشديد الضاد المعجمة، أي: ضعطه وضم بعضه إلى بعض.

وقال شعيب في حديثه أيضًا (رمرمة) براءين مهملتين وميمين (أو زمزمة) بمعجمتين على الشك، ولأبي ذر في الأولى: زمزمة بمعجمتين.

وسقط في رواية أبي ذر قوله في حديثه: فرفصه وثبت لغيره (وقال عقيل) بضم العين وفتح القاف ابن خالد الأيلي مما وصله المؤلّف في: الجهاد: (رمرمة) براءين مهملتين وميمين، ولأبي ذر: رمزة بمهملة فميم ساكنة فزاي معجمة، وفي نسخة: وقال إسحاق الكلبي، مما وصله الذهلي في

الزهريات، وعقيل المذكور: رمرمة، بمهملتين، وسقطت رواية إسحاق عند المستملي.
والكشميهني، وأبي الوقت (وقال معمر) هو ابن راشد: "رمزة" براء مهملة فميم ساكنة فزاي معجمة، ولأبي ذر: (زمرة) بتقديم المعجمة على المهملة.