هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
1301 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ انْطَلَقَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ ، حَتَّى وَجَدُوهُ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ ، وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ الحُلُمَ ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ ، ثُمَّ قَالَ لِابْنِ صَيَّادٍ : تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ ، فَقَالَ : أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الأُمِّيِّينَ ، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ فَرَفَضَهُ وَقَالَ : آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ فَقَالَ لَهُ : مَاذَا تَرَى ؟ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ : يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خُلِّطَ عَلَيْكَ الأَمْرُ ثُمَّ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ : هُوَ الدُّخُّ ، فَقَالَ : اخْسَأْ ، فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنْ يَكُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْهُ فَلاَ خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ وَقَالَ سَالِمٌ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ : انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى النَّخْلِ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ ، وَهُوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ ابْنُ صَيَّادٍ ، فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ - يَعْنِي فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْزَةٌ أَوْ زَمْرَةٌ - فَرَأَتْ أمُّ ابْنِ صَيّادٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ ، فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ : يَا صَافِ - وَهُوَ اسْمُ ابْنِ صَيَّادٍ - هَذَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ ، وَقَالَ شُعَيْبٌ فِي حَدِيثِهِ : فَرَفَصَهُ رَمْرَمَةٌ - أَوْ زَمْزَمَةٌ - وَقَالَ إِسْحَاقُ الكَلْبِيُّ ، وَعُقَيْلٌ : رَمْرَمَةٌ ، وَقَالَ مَعْمَرٌ : رَمْزَةٌ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  يعني في قطيفة له فيها رمزة أو زمرة فرأت أم ابن صياد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وهو يتقي بجذوع النخل ، فقالت لابن صياد : يا صاف وهو اسم ابن صياد هذا محمد صلى الله عليه وسلم ، فثار ابن صياد ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم : لو تركته بين ، وقال شعيب في حديثه : فرفصه رمرمة أو زمزمة وقال إسحاق الكلبي ، وعقيل : رمرمة ، وقال معمر : رمزة
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

عن ابْنِ عُمَر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّ عُمَرَ انْطَلَقَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ ، حَتَّى وَجَدُوهُ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ ، وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ الحُلُمَ ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ ، ثُمَّ قَالَ لِابْنِ صَيَّادٍ : تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ ، فَقَالَ : أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الأُمِّيِّينَ ، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ فَرَفَضَهُ وَقَالَ : آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ فَقَالَ لَهُ : مَاذَا تَرَى ؟ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ : يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خُلِّطَ عَلَيْكَ الأَمْرُ ثُمَّ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ : هُوَ الدُّخُّ ، فَقَالَ : اخْسَأْ ، فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنْ يَكُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْهُ فَلاَ خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ.

Ibn 'Umar () dit: «'Umar se rendit avec le Prophète () et un groupe de musulmans chez ben Sayyâd. Ils le trouvèrent en train de jouer avec d'autres enfants près du fort des banû Maghâla. A cette époque, ben Sayyâd approchait de l'âge de la puberté. Il ne s'aperçut de l'arrivée du Prophète () que lorsque celuici, l'ayant touché de la main, lui dit: Reconnaistu que je suis le Messager d'Allah? Ben Sayyâd le regarda et lui répondit: Je reconnais que tu es le Messager des 'Ummiyûn... Et toi, interrogeatil de son côté, reconnaistu que je suis le messager d'Allah? Sur ce, sans insister davantage, le Prophète () reprit: Je crois en Allah et en ses messagers. Mais toi, qu'en distu? — II m'arrive de recevoir le véridique et le menteur. — C'est qu'on t'a rendu la chose confuse, riposta le Prophète (), eh bien! je pense en moimême à une chose que je te cache. — C'est le dukh...! dit ben Sayyâd. — Assez! s'écria le Prophète (), tu ne pourras guère dépasser ta prédestinée. «'Umar () intervint alors: Laissemoi, ô Messager d'Allah, lui trancher la tête. — Si c'est vraiment lui [l'Antéchrist], répondit le Prophète (), tu ne pourras jamais l'abattre. Et s'il s'agit d'une autre personne, tu n'auras aucun bien à le tuer. »

":"ہم سے عبدان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہیں یونس نے ‘ انہیں زہری نے ‘ کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہعمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ دوسرے اصحاب کی معیت میں ابن صیاد کے پاس گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ بنو مغالہ کے مکانوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا ملا ۔ ان دنوں ابن صیاد جوانی کے قریب تھا ۔ اسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی کوئی خبر ہی نہیں ہوئی ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تو اسے معلوم ہوا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن صیاد ! کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ ابن صیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ کر بولا ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھوں کے رسول ہیں ۔ پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا ۔ کیا آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ میں بھی اللہ کا رسول ہوں ؟ یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا اور فرمایا میں اللہ اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لایا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تجھے کیا دکھائی دیتا ہے ؟ ابن صیاد بولا کہ میرے پاس سچی اور جھوٹی دونوں خبریں آتی ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تو تیرا سب کام گڈمڈ ہو گیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا اچھا میں نے ایک بات دل میں رکھی ہے وہ بتلا ۔ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الدخان کی آیت کا تصور کیا «فارتقب يوم تاتی السماء بدخان مبين» ) ابن صیاد نے کہا وہ «دخ» ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چل دور ہو تو اپنی بساط سے آگے کبھی نہ بڑھ سکے گا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ ! مجھ کو چھوڑ دیجئیے میں اس کی گردن مار دیتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اگر یہ دجال ہے تو ، تو اس پر غالب نہ ہو گا اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کا مار ڈالنا تیرے لیے بہتر نہ ہو گا ۔ اور سالم نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہتے تھے پھر ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ دونوں مل کر ان کھجور کے درختوں میں گئے ۔ جہاں ابن صیاد تھا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ابن صیاد آپ کو نہ دیکھے اور ) اس سے پہلے کہ وہ آپ کو دیکھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غفلت میں اس سے کچھ باتیں سن لیں ۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھ لیا ۔ وہ ایک چادر اوڑھے پڑا تھا ۔ کچھ گن گن یا پھن پھن کر رہا تھا ۔ لیکن مشکل یہ ہوئی کہ ابن صیاد کی ماں نے دور ہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے تنوں میں چھپ چھپ کر جا رہے تھے ۔ اس نے پکار کر ابن صیاد سے کہہ دیا صاف ! یہ نام ابن صیاد کا تھا ۔ دیکھو محمد آن پہنچے ۔ یہ سنتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش اس کی ماں ابن صیاد کو باتیں کرنے دیتی تو وہ اپنا حال کھولتا ۔ شعیب نے اپنی روایت میں «رمرمة فرفصه» اور عقیل نے «رمرمة‏» نقل کیا ہے اور معمر نے «رمزة‏» کہا ہے ۔

Ibn 'Umar () dit: «'Umar se rendit avec le Prophète () et un groupe de musulmans chez ben Sayyâd. Ils le trouvèrent en train de jouer avec d'autres enfants près du fort des banû Maghâla. A cette époque, ben Sayyâd approchait de l'âge de la puberté. Il ne s'aperçut de l'arrivée du Prophète () que lorsque celuici, l'ayant touché de la main, lui dit: Reconnaistu que je suis le Messager d'Allah? Ben Sayyâd le regarda et lui répondit: Je reconnais que tu es le Messager des 'Ummiyûn... Et toi, interrogeatil de son côté, reconnaistu que je suis le messager d'Allah? Sur ce, sans insister davantage, le Prophète () reprit: Je crois en Allah et en ses messagers. Mais toi, qu'en distu? — II m'arrive de recevoir le véridique et le menteur. — C'est qu'on t'a rendu la chose confuse, riposta le Prophète (), eh bien! je pense en moimême à une chose que je te cache. — C'est le dukh...! dit ben Sayyâd. — Assez! s'écria le Prophète (), tu ne pourras guère dépasser ta prédestinée. «'Umar () intervint alors: Laissemoi, ô Messager d'Allah, lui trancher la tête. — Si c'est vraiment lui [l'Antéchrist], répondit le Prophète (), tu ne pourras jamais l'abattre. Et s'il s'agit d'une autre personne, tu n'auras aucun bien à le tuer. »

شرح الحديث من فتح الباري لابن حجر

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،    ( قَولُهُ بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الْإِسْلَامُ)
هَذِهِ التَّرْجَمَةُ مَعْقُودَةٌ لِصِحَّةِ إِسْلَامِ الصَّبِيِّ وَهِيَ مَسْأَلَةُ اخْتِلَافٍ كَمَا سَنُبَيِّنُهُ وَقَولُهُ وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَيْهِ ذَكَرَهُ هُنَا بِلَفْظِ الِاسْتِفْهَامِ وَتَرْجَمَ فِي كِتَابِ الْجِهَادِ بِصِيغَةٍ تَدُلُّ عَلَى الْجَزْمِ بِذَلِكَ فَقَالَ وَكَيْفَ يُعْرَضُ الْإِسْلَامُ عَلَى الصَّبِيِّ وَكَأَنَّهُ لَمَّا أَقَامَ الْأَدِلَّةَ هُنَا عَلَى صِحَّةِ إِسْلَامِهِ اسْتَغْنَى بِذَلِكَ وَأَفَادَ هُنَاكَ ذِكْرَ الْكَيْفِيَّةِ .

     قَوْلُهُ  وقَال الْحَسَنُ إِلَخْ أَمَّا أَثَرُ الْحَسَنِ فَأَخْرَجَهُ الْبَيْهَقِيُّ مِنْ طَرِيقِ مُحَمَّدِ بْنِ نَصْرٍ أَظُنُّهُ فِي كِتَابِ الْفَرَائِضِ لَهُ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ يُونُسَ عَنِ الْحَسَنِ فِي الصَّغِيرِ قَالَ مَعَ الْمُسْلِمِ مِنْ وَالِدَيْهِ.
وَأَمَّا أَثَرُ إِبْرَاهِيمَ فَوَصَلَهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ مُغِيرَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ فِي نَصْرَانِيَّيْنَ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ صَغِيرٌ فَأَسْلَمَ أَحَدُهُمَا قَالَ أَوْلَاهُمَا بِهِ الْمُسْلِمُ.
وَأَمَّا أَثَرُ شُرَيْحٍ فَأَخْرَجَهُ الْبَيْهَقِيُّ بِالْإِسْنَادِ الْمَذْكُورِ إِلَى يَحْيَى بْنِ يَحْيَى حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ أَشْعَثَ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ شُرَيْحٍ أَنَّهُ اخْتُصِمَ إِلَيْهِ فِي صَبِيٍّ أَحَدُ أَبَوَيْهِ نَصْرَانِيٌّ قَالَ الْوَالِدُ الْمُسْلِمُ أَحَقُّ بِالْوَلَدِ.
وَأَمَّا أَثَرُ قَتَادَةَ فَوَصَلَهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْهُ نَحْو قَول الْحسن قَوْله وَكَانَ بن عَبَّاسٍ مَعَ أُمِّهِ مِنَ الْمُسْتَضْعَفِينَ وَصَلَهُ الْمُصَنِّفُ فِي الْبَابِ مِنْ حَدِيثِهِ بِلَفْظِ كُنْتُ أَنَا وَأُمِّي مِنَ الْمُسْتَضْعَفِينَ وَاسْمُ أُمِّهِ لُبَابَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ الْهِلَالِيَّةُ .

     قَوْلُهُ  وَلَمْ يَكُنْ مَعَ أَبِيهِ عَلَى دِينِ قَوْمِهِ هَذَا قَالَهُ الْمُصَنِّفُ تَفَقُّهًا وَهُوَ مَبْنِيٌّ عَلَى أَنَّ إِسْلَامَ الْعَبَّاسِ كَانَ بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ وَقَدِ اخْتُلِفَ فِي ذَلِكَ فَقِيلَ أَسْلَمَ قَبْلَ الْهِجْرَةِ وَأَقَامَ بِأَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ فِي ذَلِكَ لمصْلحَة الْمُسلمين روى ذَلِك بن سعد من حَدِيث بن عَبَّاس وَفِي إِسْنَاده الْكُلِّي وَهُوَ مَتْرُوكٌ وَيَرُدُّهُ أَنَّ الْعَبَّاسَ أُسِرَ بِبَدْرٍ وَقَدْ فَدَى نَفْسَهُ كَمَا سَيَأْتِي فِي الْمَغَازِي وَاضِحًا وَيَرُدُّهُ أَيْضًا أَنَّ الْآيَةَ الَّتِي فِي قِصَّةِ الْمُسْتَضْعَفِينَ نَزَلَتْ بَعْدَ بَدْرٍ بِلَا خِلَافٍ فَالْمَشْهُورُ أَنَّهُ أَسْلَمَ قَبْلَ فَتْحِ خَيْبَرَ وَيَدُلُّ عَلَيْهِ حَدِيثُ أَنَسٍ فِي قِصَّةِ الْحَجَّاجِ بْنِ عِلَاطٍ كَمَا أخرجه أَحْمد وَالنَّسَائِيّ وروى بن سعد من حَدِيث بن عَبَّاسٍ أَنَّهُ هَاجَرَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَيْبَرَ وَرَدَّهُ بِقِصَّةِ الْحَجَّاجِ الْمَذْكُورِ وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ هَاجَرَ عَامَ الْفَتْحِ فِي أَوَّلِ السَّنَةِ وَقَدِمَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَهِدَ الْفَتْحَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ .

     قَوْلُهُ  وقَال الْإِسْلَامُ يَعْلُو وَلَا يُعْلَى كَذَا فِي جَمِيعِ نُسَخِ الْبُخَارِيِّ لَمْ يُعَيَّنِ الْقَائِلُ وَكُنْتُ أَظُنُّ أَنه مَعْطُوف على قَول بن عَبَّاسٍ فَيَكُونُ مِنْ كَلَامِهِ ثُمَّ لَمْ أَجِدْهُ مِنْ كَلَامِهِ بَعْدَ التَّتَبُّعِ الْكَثِيرِ وَرَأَيْتُهُ مَوْصُولًا مَرْفُوعًا مِنْ حَدِيثِ غَيْرِهِ أَخْرَجَهُ الدَّارَقُطْنِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ الرُّويَانِيُّ فِي مُسْنَدِهِ مِنْ حَدِيثِ عَائِذِ بْنِ عَمْرٍو الْمُزَنِيِّ بِسَنَدٍ حَسَنٍ وَرَوَيْنَاهُ فِي فَوَائِدِ أَبِي يَعْلَى الْخَلِيلِيِّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَزَادَ فِي أَوَّلِهِ قِصَّةً وَهِيَ أَنَّ عَائِذَ بْنَ عَمْرٍو جَاءَ يَوْمَ الْفَتْحِ مَعَ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ حَرْبٍ فَقَالَ الصَّحَابَةُ هَذَا أَبُو سُفْيَانَ وَعَائِذُ بْنُ عَمْرٍو فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا عَائِذُ بْنُ عَمْرٍو وَأَبُو سُفْيَانَ الْإِسْلَامُ أَعَزُّ مِنْ ذَلِكَ الْإِسْلَامُ يَعْلُو وَلَا يُعْلَى وَفِي هَذِهِ الْقِصَّةِ أَنَّ لِلْمَبْدَأِ بِهِ فِي الذِّكْرِ تَأْثِيرًا فِي الْفَضْلِ لِمَا يُفِيدُهُ مِنَ الِاهْتِمَامِ وَلَيْسَ فِيهِ حُجَّةٌ عَلَى أَنَّ الْوَاوَ تُرَتِّبُ ثُمَّ وجدته من قَول بن عَبَّاس كَمَا كنت أَظن ذكره بن حَزْمٍ فِي الْمُحَلَّى قَالَ وَمِنْ طَرِيقِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ بن عَبَّاسٍ قَالَ إِذَا أَسْلَمَتِ الْيَهُودِيَّةُ أَوِ النَّصْرَانِيَّةُ تَحْتَ الْيَهُودِيِّ أَوِ النَّصْرَانِيِّ يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا الْإِسْلَامُ يَعْلُو وَلَا يُعْلَى ثُمَّ أَوْرَدَ الْمُصَنِّفُ فِي الْبَاب أَحَادِيث تَرَجُّحَ مَا ذَهَبَ إِلَيْهِ مِنْ صِحَّةِ إِسْلَامِ الصَّبِي أَولهَا حَدِيث بن عمر فِي قصَّة بن صَيَّادٍ وَسَيَأْتِي الْكَلَامُ عَلَيْهِ مُسْتَوْفًى فِي الْبَابِ الْمُشَارِ إِلَيْهِ فِي الْجِهَادِ وَمَقْصُودُ الْبُخَارِيِّ مِنْهُ الِاسْتِدْلَالُ هُنَا بِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِابْنِ صَيَّادٍ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَكَانَ إِذْ ذَاكَ دُونَ الْبُلُوغِ و.

     قَوْلُهُ 

[ قــ :1301 ... غــ :1354] أُطُمِ بِضَمَّتَيْنِ بِنَاء كالحصن ومغالة بِفَتْحِ الْمِيمِ وَالْمُعْجَمَةِ الْخَفِيفَةِ بَطْنٌ مِنَ الْأَنْصَارِ وبن صَيَّادٍ فِي رِوَايَةِ أَبِي ذَرٍّ صَائِدٌ وَكِلَا الْأَمْرَيْنِ كَانَ يُدْعَى بِهِ وَقَولُهُ فَرَفَضَهُ لِلْأَكْثَرِ بِالضَّادِ الْمُعْجَمَةِ أَيْ تَرَكَهُ قَالَ الزَّيْنُ بْنُ الْمُنِيرِ أَنْكَرَهَا الْقَاضِي وَلِبَعْضِهِمْ بِالْمُهْمَلَةِ أَيْ دَفَعَهُ بِرِجْلِهِ قَالَ عِيَاضٌ كَذَا فِي رِوَايَةِ أَبِي ذَرٍّ عَنْ غَيْرِ الْمُسْتَمْلِي وَلَا وَجْهَ لَهَا قَالَ الْمَازِرِيُّ لَعَلَّهُ رَفْسَهُ بِالسِّينِ الْمُهْمَلَةِ أَيْ ضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ قَالَ عِيَاضٌ لَمْ أَجِدْ هَذِهِ اللَّفْظَةَ فِي جَمَاهِيرِ اللُّغَةِ يَعْنِي بِالصَّادِ قَالَ وَقَدْ وَقَعَ فِي رِوَايَةِ الْأَصِيلِيِّ بِالْقَافِ بَدَلَ الْفَاءِ وَفِي رِوَايَةِ عَبْدُوسٍ فَوَقَصَهُ بِالْوَاوِ وَالْقَافِ وَقَولُهُ وَهُوَ يَخْتِلُ بِمُعْجَمَةِ سَاكِنَةٍ بَعْدَهَا مُثَنَّاةٌ مَكْسُورَةٌ أَيْ يَخْدَعُهُ وَالْمُرَادُ أَنَّهُ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَسْتَغْفِلَهُ لِيَسْمَعَ كَلَامَهُ وَهُوَ لَا يَشْعُرُ .

     قَوْلُهُ  لَهُ فِيهَا رُمْزَةٌ أَوْ زُمْرَةٌ كَذَا لِلْأَكْثَرِ عَلَى الشَّكِّ فِي تَقْدِيمِ الرَّاءِ عَلَى الزَّاي أَوْ تَأْخِيرِهَا وَلِبَعْضِهِمْ زَمْزَمَةٌ أَوْ رَمْرَمَةٌ عَلَى الشَّكِّ هَلْ هُوَ بِزَايَيْنِ أَوْ بِرَاءَيْنِ مَعَ زِيَادَةِ مِيمٍ فِيهِمَا وَمَعَانِي هَذِهِ الْكَلِمَاتِ الْمُخْتَلِفَةِ مُتَقَارِبَةٌ فَأَمَّا الَّتِي بِتَقْدِيمِ الرَّاءِ وَمِيمٍ وَاحِدَةٍ فَهِيَ فُعْلَةٌ مِنَ الرَّمْزِ وَهُوَ الْإِشَارَةُ.
وَأَمَّا الَّتِي بِتَقْدِيمِ الزَّاي كَذَلِكَ فَمِنَ الزُّمَرِ وَالْمُرَادُ حِكَايَةُ صَوْتِهِ.
وَأَمَّا الَّتِي بِالْمُهْمَلَتَيْنِ وَمِيمَيْنِ فَأَصْلُهُ مِنَ الْحَرَكَةِ وَهِيَ هُنَا بِمَعْنَى الصَّوْتِ الْخَفِيِّ.
وَأَمَّا الَّتِي بِالْمُعْجَمَتَيْنِ كَذَلِكَ فَقَالَ الْخَطَّابِيُّ هُوَ تَحْرِيكُ الشَّفَتَيْنِ بِالْكَلَامِ.

     وَقَالَ  غَيْرُهُ وَهُوَ كَلَامُ الْعُلُوجِ وَهُوَ صَوْتٌ يُصَوَّتُ مِنَ الخياشيم وَالْحلق قَوْله فثار بن صَيَّادٍ أَيْ قَامَ كَذَا لِلْأَكْثَرِ وَلِلْكُشْمِيهَنِيِّ فَثَابَ بِمُوَحَّدَةٍ أَيْ رَجَعَ عَنِ الْحَالَةِ الَّتِي كَانَ فِيهَا .

     قَوْلُهُ  وقَال شُعَيْبٌ زَمْزَمَةٌ فَرَفَصَهُ فِي رِوَايَةِ أَبِي ذَرٍّ بِالزَّايَيْنِ وَبِالصَّادِ الْمُهْمَلَةِ وَفِي رِوَايَةِ غَيْرِهِ.

     وَقَالَ  شُعَيْبٌ فِي حَدِيثِهِ فَرَفَصَهُ زَمْزَمَةٌ أَوْ رَمْرَمَةٌ بِالشَّكِّ وَسَيَأْتِي فِي الْأَدَبِ مَوْصُولًا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ بِالشَّكِّ لَكِنْ فِيهِ فرصه بِغَيْر فَاء وبالتشديد وَذكره الْخَطَّابِيُّ فِي غَرِيبِهِ بِمُهْمَلَةٍ أَيْ ضَغَطَهُ وَضَمَّ بَعْضَهُ إِلَى بَعْضٍ .

     قَوْلُهُ  وقَال إِسْحَاقُ الْكَلْبِيُّ وَعُقَيْلٌ رَمْرَمَةٌ يَعْنِي بِمُهْمَلَتَيْنِ.

     وَقَالَ  مَعْمَرٌ رُمْزَةٌ يَعْنِي بِرَاءٍ ثُمَّ زَايٍ أَمَّا رِوَايَةُ إِسْحَاقَ فَوَصَلَهَا الذُّهْلِيُّ فِي الزُّهْرِيَّاتِ وَسَقَطَتْ مِنْ رِوَايَةِ الْمُسْتَمْلِي والْكُشْمِيهَنِيِّ وَأَبِي الْوَقْتِ.
وَأَمَّا رِوَايَةُ عُقَيْلٍ فَوَصَلَهَا الْمُصَنِّفُ فِي الْجِهَادِ وَكَذَا رِوَايَةُ مَعْمَرٍ ثَانِي الْأَحَادِيثِ حَدِيثُ أَنَسٍ كَانَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ لَمْ أَقِفْ فِي شَيْءٍ مِنَ الطُّرُقِ الموصولة على تَسْمِيَته الا أَن بن بَشْكُوَالٍ ذَكَرَ أَنَّ صَاحِبَ الْعُتْبِيَّةِ حَكَى عَنْ زِيَادٍ شَيْطُونٍ أَنَّ اسْمَ هَذَا الْغُلَامِ عَبْدُ الْقُدُّوسِ قَالَ وَهُوَ غَرِيبٌ مَا وَجَدْتُهُ عِنْدَ غَيْرِهِ