هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6610 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : إِنَّمَا جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشُّفْعَةَ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ ، فَإِذَا وَقَعَتِ الحُدُودُ ، وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ ، فَلاَ شُفْعَةَ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ : الشُّفْعَةُ لِلْجِوَارِ ، ثُمَّ عَمَدَ إِلَى مَا شَدَّدَهُ فَأَبْطَلَهُ ، وَقَالَ : إِنِ اشْتَرَى دَارًا ، فَخَافَ أَنْ يَأْخُذَ الجَارُ بِالشُّفْعَةِ ، فَاشْتَرَى سَهْمًا مِنْ مِائَةِ سَهْمٍ ، ثُمَّ اشْتَرَى البَاقِيَ ، وَكَانَ لِلْجَارِ الشُّفْعَةُ فِي السَّهْمِ الأَوَّلِ ، وَلاَ شُفْعَةَ لَهُ فِي بَاقِي الدَّارِ ، وَلَهُ أَنْ يَحْتَالَ فِي ذَلِكَ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6610 حدثنا عبد الله بن محمد ، حدثنا هشام بن يوسف ، أخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن أبي سلمة ، عن جابر بن عبد الله ، قال : إنما جعل النبي صلى الله عليه وسلم الشفعة في كل ما لم يقسم ، فإذا وقعت الحدود ، وصرفت الطرق ، فلا شفعة وقال بعض الناس : الشفعة للجوار ، ثم عمد إلى ما شدده فأبطله ، وقال : إن اشترى دارا ، فخاف أن يأخذ الجار بالشفعة ، فاشترى سهما من مائة سهم ، ثم اشترى الباقي ، وكان للجار الشفعة في السهم الأول ، ولا شفعة له في باقي الدار ، وله أن يحتال في ذلك
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated Jabir bin `Abdullah:

The Prophet (ﷺ) has decreed that preemption is valid in all cases where the real estate concerned has not been divided, but if the boundaries are established and the ways are made, then there is no preemption. A man said, Preemption is only for the neighbor, and then he makes invalid what he has confirmed. He said, If someone wants to buy a house and being afraid that the neighbor (of the house) may buy it through preemption, he buys one share out of one hundred shares of the house and then buys the rest of the house, then the neighbor can only have the right of preemption for the first share but not for the rest of the house; and the buyer may play such a trick in this case.

":"ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ کا حکم ہر اس چیز میں دیا تھا جو تقسیم نہ ہو سکتی ہو ۔ پس جب حد بندی ہو جائے اور راستے الگ الگ کر دئیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں ۔  اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ شفعہ کا حق پڑوسی کو بھی ہوتا ہے پھر خود ہی اپنی بات کو غلط قرار دیا اور کہا کہ اگر کسی نے کوئی گھر خریدا اور اسے خطرہ ہے کہ اس کا پڑوسی حق شفعہ کی بنا پر اس سے گھر لے لے گا تو اس نے اس کے سو حصے کر کے ایک حصہ اس میں سے پہلے خرید لیا اور باقی حصے بعد میں خریدے تو ایسی صورت میں پہلے حصے میں تو پڑوسی کو شفعہ کا حق ہو گا ۔ گھر کے باقی حصوں میں اسے یہ حق نہیں ہو گا اور اس کے لیے جائز ہے کہ یہ حیلہ کرے ۔