هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6787 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ ، مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ ، أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَوْمَ حُنَيْنٍ : مَنْ لَهُ بَيِّنَةٌ عَلَى قَتِيلٍ قَتَلَهُ فَلَهُ سَلَبُهُ ، فَقُمْتُ لِأَلْتَمِسَ بَيِّنَةً عَلَى قَتِيلِي ، فَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَشْهَدُ لِي ، فَجَلَسْتُ ، ثُمَّ بَدَا لِي ، فَذَكَرْتُ أَمْرَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ : سِلاَحُ هَذَا القَتِيلِ الَّذِي يَذْكُرُ عِنْدِي ، قَالَ : فَأَرْضِهِ مِنْهُ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : كَلَّا ، لاَ يُعْطِيهِ أُصَيْبِغَ مِنْ قُرَيْشٍ وَيَدَعَ أَسَدًا مِنْ أُسْدِ اللَّهِ ، يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ، قَالَ : فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَدَّاهُ إِلَيَّ ، فَاشْتَرَيْتُ مِنْهُ خِرَافًا ، فَكَانَ أَوَّلَ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ ، قَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ عَنِ اللَّيْثِ : فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَدَّاهُ إِلَيَّ ، وَقَالَ أَهْلُ الحِجَازِ : الحَاكِمُ لاَ يَقْضِي بِعِلْمِهِ شَهِدَ بِذَلِكَ فِي وِلاَيَتِهِ أَوْ قَبْلَهَا ، وَلَوْ أَقَرَّ خَصْمٌ عِنْدَهُ لِآخَرَ بِحَقٍّ فِي مَجْلِسِ القَضَاءِ ، فَإِنَّهُ لاَ يَقْضِي عَلَيْهِ فِي قَوْلِ بَعْضِهِمْ حَتَّى يَدْعُوَ بِشَاهِدَيْنِ فَيُحْضِرَهُمَا إِقْرَارَهُ ، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ العِرَاقِ : مَا سَمِعَ أَوْ رَآهُ فِي مَجْلِسِ القَضَاءِ قَضَى بِهِ ، وَمَا كَانَ فِي غَيْرِهِ لَمْ يَقْضِ إِلَّا بِشَاهِدَيْنِ ، وَقَالَ آخَرُونَ مِنْهُمْ : بَلْ يَقْضِي بِهِ ، لِأَنَّهُ مُؤْتَمَنٌ ، وَإِنَّمَا يُرَادُ مِنَ الشَّهَادَةِ مَعْرِفَةُ الحَقِّ ، فَعِلْمُهُ أَكْثَرُ مِنَ الشَّهَادَةِ ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : يَقْضِي بِعِلْمِهِ فِي الأَمْوَالِ ، وَلاَ يَقْضِي فِي غَيْرِهَا ، وَقَالَ القَاسِمُ : لاَ يَنْبَغِي لِلْحَاكِمِ أَنْ يُمْضِيَ قَضَاءً بِعِلْمِهِ دُونَ عِلْمِ غَيْرِهِ ، مَعَ أَنَّ عِلْمَهُ أَكْثَرُ مِنْ شَهَادَةِ غَيْرِهِ ، وَلَكِنَّ فِيهِ تَعَرُّضًا لِتُهَمَةِ نَفْسِهِ عِنْدَ المُسْلِمِينَ ، وَإِيقَاعًا لَهُمْ فِي الظُّنُونِ وَقَدْ كَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظَّنَّ فَقَالَ : إِنَّمَا هَذِهِ صَفِيَّةُ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6787 حدثنا قتيبة ، حدثنا الليث بن سعد ، عن يحيى ، عن عمر بن كثير ، عن أبي محمد ، مولى أبي قتادة ، أن أبا قتادة ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ، يوم حنين : من له بينة على قتيل قتله فله سلبه ، فقمت لألتمس بينة على قتيلي ، فلم أر أحدا يشهد لي ، فجلست ، ثم بدا لي ، فذكرت أمره إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال رجل من جلسائه : سلاح هذا القتيل الذي يذكر عندي ، قال : فأرضه منه ، فقال أبو بكر : كلا ، لا يعطيه أصيبغ من قريش ويدع أسدا من أسد الله ، يقاتل عن الله ورسوله ، قال : فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فأداه إلي ، فاشتريت منه خرافا ، فكان أول مال تأثلته ، قال لي عبد الله عن الليث : فقام النبي صلى الله عليه وسلم فأداه إلي ، وقال أهل الحجاز : الحاكم لا يقضي بعلمه شهد بذلك في ولايته أو قبلها ، ولو أقر خصم عنده لآخر بحق في مجلس القضاء ، فإنه لا يقضي عليه في قول بعضهم حتى يدعو بشاهدين فيحضرهما إقراره ، وقال بعض أهل العراق : ما سمع أو رآه في مجلس القضاء قضى به ، وما كان في غيره لم يقض إلا بشاهدين ، وقال آخرون منهم : بل يقضي به ، لأنه مؤتمن ، وإنما يراد من الشهادة معرفة الحق ، فعلمه أكثر من الشهادة ، وقال بعضهم : يقضي بعلمه في الأموال ، ولا يقضي في غيرها ، وقال القاسم : لا ينبغي للحاكم أن يمضي قضاء بعلمه دون علم غيره ، مع أن علمه أكثر من شهادة غيره ، ولكن فيه تعرضا لتهمة نفسه عند المسلمين ، وإيقاعا لهم في الظنون وقد كره النبي صلى الله عليه وسلم الظن فقال : إنما هذه صفية
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated Abu Qatada:

Allah's Messenger (ﷺ) said on the Day of (the battle of) Hunain, Whoever has killed an infidel and has a proof or a witness for it, then the salb (arms and belongings of that deceased) will be for him. I stood up to seek a witness to testify that I had killed an infidel but I could not find any witness and then sat down. Then I thought that I should mention the case to Allah's Messenger (ﷺ) I (and when I did so) a man from those who were sitting with him said, The arms of the killed person he has mentioned, are with me, so please satisfy him on my behalf. Abu Bakr said, No, he will not give the arms to a bird of Quraish and deprive one of Allah's lions of it who fights for the cause of Allah and His Apostle. Allah's Messenger (ﷺ) I stood up and gave it to me, and I bought a garden with its price, and that was my first property which I owned through the war booty. The people of Hijaz said, A judge should not pass a judgment according to his knowledge, whether he was a witness at the time he was the judge or before that And if a litigant gives a confession in favor of his opponent in the court, in the opinion of some scholars, the judge should not pass a judgment against him till the latter calls two witnesses to witness his confession. And some people of Iraq said, A judge can pass a judgement according to what he hears or witnesses (the litigant's confession) in the court itself, but if the confession takes place outside the court, he should not pass the judgment unless two witnesses witness the confession. Some of them said, A judge can pass a judgement depending on his knowledge of the case as he is trust-worthy, and that a witness is Required just to reveal the truth. The judge's knowledge is more than the witness. Some said, A judge can judge according to his knowledge only in cases involving property, but in other cases he cannot. Al-Qasim said, A judge ought not to pass a judgment depending on his knowledge if other people do not know what he knows, although his knowledge is more than the witness of somebody else because he might expose himself to suspicion by the Muslims and cause the Muslims to have unreasonable doubt.

":"ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے ، ان سے عمر بن کثیر نے ، ان سے ابوقتادہ کے غلام ابو محمد نافع نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کی جنگ کے دن فرمایا ، جس کے پاس کسی مقتول کے بارے میں جسے اس نے قتل کیا ہو گواہی ہو تو اس کا سامان اسے ملے گا ۔ چنانچہ میں مقتول کے لیے گواہ تلاش کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو میرے لیے گواہی دے سکے ، اس لیے میں بیٹھ گیا ۔ پھر میرے سامنے ایک صورت آئی اور میں نے اس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو وہاں بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے کہا کہ اس مقتول کا سامان جس کا ابوقتادہ ذکر کر رہے ہیں ، میرے پاس ہے ۔ انہیں اس کے لیے راضی کر دیجئیے ( کہ وہ یہ ہتھیار وغیرہ مجھے دے دیں ) اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہرگز نہیں ۔ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو نظرانداز کر کے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کرتا ہے وہ قریش کے معمولی آدمی کو ہتھیار نہیں دیں گے ۔ بیان کیا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور انہوں نے ہتھیار مجھے دے دئیے اور میں نے اس سے ایک باغ خریدا ۔ یہ پہلا مال تھا جو میں نے ( اسلام کے بعد ) حاصل کیا تھا ۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے عبداللہ بن صالح نے بیان کیا ، ان سے لیث بن سعد نے کہ ” پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور مجھے وہ سامان دلادیا ، اور اہل حجاز امام مالک وغیرہ نے کہا کہ حاکم کو صرف اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا درست نہیں ۔ خواہ وہ معاملہ پر عہدہ قضاء حاصل ہونے کے بعد گواہ ہوا ہو یا اس سے پہلے اور اگر کسی فریق نے اس کے سامنے دوسرے کے لیے مجلس قضاء میں کسی حق کا اقرار کیا تو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس بنیاد پر وہ فیصلہ نہیں کرے گا بلکہ دو گواہوں کو بلا کر ان کے سامنے اقرار کرائے گا ۔ اور بعض اہل عراق نے کہا ہے کہ جو کچھ قاضی نے عدالت میں دیکھا یا سنا اس کے مطابق فیصلہ کرے گا لیکن جو کچھ عدالت کے باہر ہو گا اس کی بنیاد پر دو گواہوں کے بغیر فیصلہ نہیں کر سکتا اور انہیں میں سے دوسرے لوگوں نے کہا کہ اس کی بنیاد پر بھی فیصلہ کر سکتا ہے کیں کہ وہ امانت دار ہے ۔ شہادت کا مقصد تو صرف حق کا جاننا ہے پس قاضی کا ذاتی علم گواہی سے بڑھ کر ہے ۔ اور بعض ان میں سے کہتے ہیں کہ اموال کے بارے میں تو اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا اور اس کے سوا میں نہیں کرے گا اور قاسم نے کہا کہ حاکم کے لیے درست نہیں کہ وہ کوئی فیصلہ صرف اپنے علم کی بنیاد پر کرے اور دوسرے کے علم کو نظرانداز کر دے گو قاضی کا علم دوسرے کی گواہی سے بڑھ کر ہے لیکن چونکہ عام مسلمانوں کی نظر میں اس صورت میں قاضی کے مہتمم ہونے کا خطرہ ہے اور مسلمانوں کو اس طرح بدگمانی میں مبتلا کرنا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدگمانی کو ناپسند کیا تھا اور فرمایا تھا کہ یہ صفیہ میری بیوی ہیں ۔

شرح الحديث من عمدة القاري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،    ( بابُُ الشَّهادَةِ تَكُونُ عِنْدَ الحاكِمِ فِي وِلايَتِهِ القَضاءَ أوْ قَبْلَ ذالِكَ لِلْخَصْمِ)

أَي: هَذَا بابُُ فِي بَيَان حكم الشَّهَادَة الَّتِي تكون عِنْد الْحَاكِم يَعْنِي: إِذا كَانَ الْحَاكِم شَاهدا للخصم الَّذِي هُوَ أحد المتحاكمين عِنْده سَوَاء تحملهَا قبل تَوليته للْقَضَاء أَو فِي زمَان التولي هَل لَهُ أَن يحكم بهَا؟ اخْتلفُوا فِي أَن لَهُ ذَلِك أم لَا، فَلذَلِك لم يجْزم بِالْجَوَابِ لقُوَّة الْخلاف فِي الْمَسْأَلَة.
وَإِن كَانَ آخر كَلَامه يَقْتَضِي اخْتِيَار أَن لَا يحكم بِعِلْمِهِ فِيهَا، وَبَيَان الْخلاف فِيهِ يَأْتِي عَن قريب إِن شَاءَ الله تَعَالَى.
وَفِي التَّوْضِيح تَرْجَمَة البُخَارِيّ فِيهَا دَلِيل على أَن الْحَاكِم إِنَّمَا يشْهد عِنْد غَيره بِمَا تقدم عِنْده من شَهَادَة فِي ولَايَته أَو قبلهَا وَهُوَ قَول مَالك وَأكْثر أَصْحَابه،.

     وَقَالَ  بعض أَصْحَابنَا يَعْنِي من الشَّافِعِيَّة: يحكم بِمَا علمه فِيمَا أقرّ بِهِ أحد الْخَصْمَيْنِ عِنْده فِي مَجْلِسه.

وَقَالَ شُرَيحٌ القاضِي، وسَألَهُ إنْسانٌ الشَّهادَةَ فَقَالَ: ائْتِ الأمِيرَ حتَّى أشْهَدَ لَكَ.

هَذَا وَصله عبد الرَّزَّاق عَن ابْن عُيَيْنَة عَن ابْن شبْرمَة، قَالَ: قلت لِلشَّعْبِيِّ: يَا أَبَا عَمْرو: أَرَأَيْت رجلَيْنِ استشهدا على شَهَادَة فَمَاتَ أَحدهمَا واستقضي الآخر؟ فَقَالَ: أُتِي شُرَيْح فِيهَا، وَأَنا جَالس.
فَقَالَ: ائْتِ الْأَمِير وَأَنا أشهد لَك.
قَوْله: ائْتِ الْأَمِير، أَي السُّلْطَان أَو من هُوَ فَوْقه.

وَقَالَ عِكْرِمَةُ: قَالَ عُمَرُ لِعَبْدِ الرَّحْمانِ بنِ عَوْفٍ: لَوْ رَأيْتَ رَجُلاً عَلى حَدَ زِنًى أوْ سَرِقَةٍ وأنْتَ أمِيرٌ، فَقَالَ: شَهَادَتُكَ شَهادَةُ رَجُلٍ مِنَ المُسْلِمِينَ.
قَالَ: صَدَقْتَ.
قَالَ عُمَرُ: لَوْلا أنْ يَقُولَ النَّاسُ زادَ عُمَرُ فِي كِتابِ الله لَكَتَبْتُ آيةَ الرَّجْمِ بِيَدِيِ.

مولى ابْن عَبَّاس.
قَالَ عمر أَي: ابْن الْخطاب إِلَى آخِره.
وَأخرجه ابْن أبي شيبَة عَن شريك عَن عبد الْكَرِيم الْجَزرِي عَن عِكْرِمَة بِلَفْظ: أَرَأَيْت لَو كنت القَاضِي والوالي وأبصرت إنْسَانا أَكنت مقيمه عَلَيْهِ؟ قَالَ: لَا، حَتَّى يشْهد معي غَيْرِي.
قَالَ: أصبت، لَو قلت غير ذَلِك لم تَجِد، بِضَم التَّاء الْمُثَنَّاة من فَوق وَكسر الْجِيم وَسُكُون الدَّال من الإجادة.
وَهَذَا السَّنَد مُنْقَطع لِأَن عِكْرِمَة لم يدْرك عبد الرحمان فضلا عَن عمر، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ.
قَوْله: قَالَ عمر: لَوْلَا أَن يَقُول النَّاس ... إِلَى آخِره، قَالَ الْمُهلب، رَحمَه الله: اسْتشْهد البُخَارِيّ بقول عبد الرحمان بن عَوْف الْمَذْكُور بقول عمر هَذَا أَنه كَانَت عِنْده شَهَادَة فِي آيَة الرَّجْم أَنَّهَا من الْقُرْآن فَلم يلْحقهَا بِنَصّ الْمُصحف بِشَهَادَتِهِ فِيهِ وَحده، وأفصح بِالْعِلَّةِ فِي ذَلِك بقوله: لَوْلَا أَن يَقُول النَّاس زَاد عمر فِي كتاب الله، فَأَشَارَ إِلَى أَن ذَلِك من قطع الذرائع، لِئَلَّا يجد حكام السوء السَّبِيل إِلَى أَن يدعوا الْعلم لمن أَحبُّوا لَهُ الحكم بِشَيْء.

وأقَرَّ ماعِزٌ عِنْدَ النبيِّ بِالزِّنى أرْبعاً، فأمَرَ بِرَجْمِهِ، ولَمْ يُذْكَرْ أنَّ النبيَّ أشْهَدَ مَنْ حَضَرَهُ
أَشَارَ بِهَذَا إِلَى أَن حكم رَسُول الله على مَاعِز بِالرَّجمِ كَانَ بِإِقْرَارِهِ دون أَن يشْهد من حَضَره.
وَحَدِيث مَاعِز قد تكَرر ذكره.

وَقَالَ حَمَّادٌ: إِذا أقَرَّ مَرَّةً عِنْدَ الحاكِمِ رُجِم،.

     وَقَالَ  الحَكَمُ: أرْبعاً.

حَمَّاد هُوَ ابْن سُلَيْمَان فَقِيه الْكُوفَة، وَالْحكم بِفتْحَتَيْنِ ابْن عتيبة مصغر عتبَة الْبابُُ فَقِيه الْكُوفَة أَيْضا.
قَوْله: أَرْبعا، يَعْنِي لَا يرْجم حَتَّى يقر، أَربع مَرَّات، وَوَصله ابْن أبي شيبَة من طَرِيق شُعْبَة قَالَ: سَأَلت حماداً عَن الرجل يقر بالزنى كم يردد؟ قَالَ: مرّة.
قَالَ: وَسَأَلت الحكم فَقَالَ: أَربع مَرَّات، وَالله أعلم.



[ قــ :6787 ... غــ :7170 ]
- حدّثنا قُتَيْبَةُ، حدّثنا اللَّيْثُ، عنْ يَحْياى، عنْ عُمَرَ بنِ كَثِيرٍ، عنْ أبي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أبي قَتَادَةَ أنَّ أَبَا قَتَادةَ قَالَ: قَالَ رسولُ الله يَوْمَ حُنَيْنٍ مَنْ لهُ بَيِّنَةٌ عَلى قَتِيلٍ قَتَلهُ فَلَه سَلَبُهُ فَقُمْتُ لألْتمِسَ بَيَّنَةً عَلى قَتِيل فَلَمْ أرَ أحَداً يَشْهَدُ لِي، فَجَلَسْتُ، ثُمَّ بَدَا لِي فَذَكَرْتُ أمْرَهُ إِلَى رسولِ الله فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسائِه: سِلاحُ هاذَا القَتِيلِ الّذِي يَذْكُرُ عِنْدِي.
قَالَ: فأرْضِهِ مِنْهُ فَقَالَ أبُو بَكْرٍ: كلاَّ لَا يُعْطِهِ أُصَيْبِغَ مِنْ قُرَيْشٍ ويَدَعَ أسَداً مِنْ أُسْدِ الله يُقاتِلُ عنِ الله ورَسُولِهِ، قَالَ: فأمَرَ رسولُ الله فأدَّاهُ إلَيَّ فاشْتَرَيْتُ مِنْهُ خِرافاً فَكان أوَّلَ مالٍ تأَثَّلْتُهُ.


مطابقته للتَّرْجَمَة تُؤْخَذ من قَوْله: فَأمر رَسُول الله هَكَذَا فِي رِوَايَة كَرِيمَة، فأُمر بِفَتْح الْهمزَة وَالْمِيم بعْدهَا رَاء، وَفِي رِوَايَة: فَقَامَ رَسُول الله فأداه إليّ، وَفِي رِوَايَة أبي ذَر عَن غير الْكشميهني: فَحكم، وَكَذَا الْأَكْثَر رُوَاة الْفربرِي.

وَيحيى هُوَ ابْن سعيد الْأنْصَارِيّ، وَعمر بن كثير ضد الْقَلِيل مولى أبي أَيُّوب الْأنْصَارِيّ، وَأَبُو مُحَمَّد هُوَ نَافِع مولى أبي قَتَادَة الْحَارِث الْأنْصَارِيّ الخزرجي.

والْحَدِيث مضى فِي الْخمس والبيوع عَن القعْنبِي وَفِي الْمَغَازِي فِي غَزْوَة حنين عَن عبد الله بن يُوسُف، وَقد مر الْكَلَام فِيهِ.

قَوْله: سلبه بِفَتْح اللَّام مَال مَعَ الْقَتِيل من الثِّيَاب والأسلحة وَنَحْوهمَا.
قَوْله: فأرضه مِنْهُ هِيَ رِوَايَة الْأَكْثَرين، وَعند الْكشميهني: مني.
قَوْله: كلا كلمة ردع.
قَوْله: أصيبغ بِضَم الْهمزَة وَفتح الصَّاد الْمُهْملَة وبالغين الْمُعْجَمَة تَصْغِير أصْبع صغره تحقيراً لَهُ بوصفه باللون الرَّدِيء،.

     وَقَالَ  الْخطابِيّ: الأصيبغ بالصَّاد الْمُهْملَة نوع من الطير ونبات ضَعِيف كالثمام، ويروى بالضاد الْمُعْجَمَة وَالْعين الْمُهْملَة مصغر الضبع على غير قِيَاس، كَأَنَّهُ لما عظم أَبَا قَتَادَة بِأَنَّهُ أَسد صغر هَذَا وَشبهه بالضبع لضعف افتراسه بِالنِّسْبَةِ إِلَى الْأسد، وأصيبغ مَنْصُوب لِأَنَّهُ مفعول ثَان لقَوْله: لَا يُعْطه قَوْله: ويدع قَالَ الْكرْمَانِي: بِالرَّفْع وَالنّصب والجزم، وَلم يين وَجه ذَلِك اعْتِمَادًا على أَن القارىء الَّذِي لَهُ يَد فِي الْعَرَبيَّة لَا يخفى عَلَيْهِ ذَلِك.
قَوْله: أسداً بِفتْحَتَيْنِ، و: من أَسد الله بِضَم الْهمزَة وَسُكُون السِّين جمع: أَسد.
قَوْله: يُقَاتل فِي مَحل النصب لِأَنَّهُ صفة.
قَوْله: أسداً قَوْله: فأداه إليّ بتَشْديد الْيَاء.
قَوْله: خرافاً بِكَسْر الْخَاء الْمُعْجَمَة وَتَخْفِيف الرَّاء هُوَ الْبُسْتَان.
قَوْله: تأثلته أَي: اتخذته أصل المَال واقتنيته، وَيُقَال: مَال مؤثل ومجد مؤثل أَي: مَجْمُوع ذُو أصل.
.

     وَقَالَ  الْكرْمَانِي: فَإِن قلت: أول الْقِصَّة وَهُوَ طلب الْبَيِّنَة تخَالف آخرهَا حَيْثُ حكم بِدُونِهَا، قلت: لَا تخَالف لِأَن الْخصم اعْترف بذلك مَعَ أَن المَال لرَسُول الله لَهُ أَن يُعْطي من شَاءَ وَيمْنَع من شَاءَ.

قَالَ لِي عَبْدُ الله عنِ اللَّيْثِ: فَقامَ النبيُّ فأدَّاهُ إلَي
عبد الله هُوَ ابْن صَالح كَاتب اللَّيْث بن سعد، وَالْبُخَارِيّ يعتمده فِي الشواهد.
قَوْله: فَقَامَ، يَعْنِي مَوضِع فَأمر.

وَقَالَ أهْلُ الحِجازِ: الحاكِمُ لَا يَقْضِي بِعِلْمِهِ شَهِدَ بِذالِكَ فِي وِلايَتِهِ أوْ قَبْلَها، ولَوْ أقَرَّ خَصْمٌ عِنْدَهُ لآخَرَ بِحَقَ فِي مَجْلِسِ القَضاءِ فإنَّهُ لَا يَقْضِي عَلَيْهِ فِي قَوْلِ بَعْضِهِمْ حتَّى يَدْعُو بِشاهِدَيْنِ فَيُحْضِرَهُما إقْرارَهُ.

وَقَالَ بَعْضُ أهْلِ العِراقِ: مَا سَمِعَ أوْ رآهُ فِي مَجْلِس القَضاءِ قَضاى بِهِ، وَمَا كانَ فِي غَيْرِهِ لَمْ يَقْضِ إلاّ بِشاهِدَيْنِ.

     وَقَالَ  آخَرُونَ مِنْهُمْ: بلْ يَقْضِي بِهِ لأنَّهُ مُؤْتَمَنٌ، وإنَّما يُرادُ مِنَ الشَّهادَةِ مَعْرِفَةُ الحَقِّ.
فَعِلْمُهُ أكْثَرُ مِنَ الشَّهادَةِ.
.

     وَقَالَ  بَعْضَهُمْ: يَقْضِي بِعِلْمِهِ فِي الأمْوالِ وَلَا يَقْضي فِي غَيْرِها.

أَرَادَ بِأَهْل الْحجاز مَالِكًا وَمن وَافقه فِي هَذِه الْمَسْأَلَة.
قَوْله: وَلَو أقرّ خصم إِلَى قَوْله: فيحضرهما إِقْرَاره، بِضَم الْيَاء من الْإِحْضَار، وَهُوَ قَول ابْن الْقَاسِم وَأَشْهَب.
قَوْله:.

     وَقَالَ  بعض أهل الْعرَاق أَرَادَ بهم أَبَا حنيفَة وَمن تبعه، وَهُوَ قَول مطرف وَابْن الْمَاجشون وَأصبغ وَسَحْنُون من الْمَالِكِيَّة،.

     وَقَالَ  ابْن التِّين: وَجرى بِهِ الْعَمَل، وَيُوَافِقهُ مَا أخرجه عبد الرَّزَّاق بِسَنَد صَحِيح عَن ابْن سِيرِين قَالَ: اعْترف رجل عِنْد شُرَيْح بِأَمْر ثمَّ أنكرهُ، فَقضى عَلَيْهِ باعترافه، فَقَالَ: أتقضي عليّ بِغَيْر بَيِّنَة؟ فَقَالَ: شهد عَلَيْك ابْن أُخْت خالتك يَعْنِي نَفسه.
قَوْله:.

     وَقَالَ  آخَرُونَ مِنْهُم أَي: من أهل الْعرَاق، وَأَرَادَ بهم أَبَا يُوسُف وَمن تبعه، وَوَافَقَهُمْ الشَّافِعِي، رَحمَه الله تَعَالَى.
قَوْله:.

     وَقَالَ  بَعضهم يَعْنِي من أهل الْعرَاق وَأَرَادَ بهم أَبَا حنيفَة وَأَبا يُوسُف فِيمَا نَقله الْكَرَابِيسِي عَنهُ.

وَقَالَ القاسِمُ: لَا يَنْبَغِي لِلْحاكِمِ أنْ يُمْضِيَ قَضاءً بِعِلْمِهِ دُونَ عِلْمٍ غَيْرِهِ، مَعَ أنَّ عِلْمَهُ أكْثَرُ مِنْ شَهادَةِ غَيْرِهِ، ولاكِنَّ فِيهِ تَعَرُّضاً لِتُهَمَةِ نَفْسِهِ عِندَ المُسْلِمِينَ وإيقاعاً لَهُمْ فِي الظُّنُونِ، وقَدْ كَرِهَ النبيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم الظَّنَّ فَقَالَ: إنَّما هاذِهِ صَفِيَّةُ
الْقَاسِم إِذا أطلق يُرَاد بِهِ ابْن مُحَمَّد بن أبي بكر الصّديق، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، قَالَه الْكرْمَانِي:.

     وَقَالَ  بَعضهم: كنت أَظن أَنه ابْن مُحَمَّد بن أبي بكر الصّديق أحد الْفُقَهَاء السَّبْعَة من أهل الْمَدِينَة لِأَنَّهُ إِذا أطلق فِي الْفُرُوع الْفِقْهِيَّة انْصَرف الذِّهْن إِلَيْهِ، لَكِن رَأَيْت فِي رِوَايَة عَن أبي ذَر أَنه: الْقَاسِم بن عبد الرحمان بن عبد الله بن مَسْعُود، فَإِن كَانَ كَذَلِك فقد خَالف أَصْحَابه الْكُوفِيّين وَوَافَقَ أهل الْمَدِينَة.
انْتهى.
قلت: الْكَلَام فِي صِحَة رِوَايَة أبي ذَر على أَن هَذِه الْمَسْأَلَة فقهية، وَعند الْفُقَهَاء إِذا أطلق الْقَاسِم يُرَاد بِهِ الْقَاسِم بن مُحَمَّد بن أبي بكر الصّديق، وَلَئِن سلمنَا صِحَة رِوَايَة أبي ذَر فإطباق الْفُقَهَاء على أَنه إِذا أطلق يُرَاد بِهِ ابْن مُحَمَّد بن أبي بكر أرجح من كَلَام غَيرهم.
قَوْله: أَن يمْضِي بِضَم الْيَاء آخر الْحُرُوف من الْإِمْضَاء، هَكَذَا فِي رِوَايَة الْكشميهني، وَفِي رِوَايَة غَيره: أَن يقْضِي.
قَوْله: دون علم غَيره أَي: إِذا كَانَ وَحده عَالما بِهِ لَا غَيره.
قَوْله: وَلَكِن فِيهِ تعرضاً بتَشْديد النُّون، وتعرضاً مَنْصُوب لِأَنَّهُ اسْم لَكِن، وَفِي بعض النّسخ بِالتَّخْفِيفِ فعلى هَذَا قَوْله: تعرض، بِالرَّفْع وارتفاعه على أَنه مُبْتَدأ، وَخَبره.
قَوْله: فِيهِ، مقدما.
قَوْله: وإيقاعاً نصب عطفا على: تعرضاً،.

     وَقَالَ  الْكرْمَانِي مَنْصُوب بِأَنَّهُ مفعول مَعَه وَالْعَامِل هَاهُنَا مَا يلْزم الظّرْف.
قَوْله: وَقد كره النَّبِي الظَّن ... ذكره فِي معرض الِاسْتِدْلَال فِي نفي قَضَاء الْحَاكِم فِي أَمر بِعِلْمِهِ دون علم غَيره، لِأَن فِيهِ إِيقَاع نَفسه فِي الظَّن، وَالنَّبِيّ كره الظَّن، إِلَّا يرى أَنه قَالَ للرجلين اللَّذين مرا بِهِ وَصفِيَّة بنت حييّ زَوجته مَعَه: إِنَّمَا هَذِه صَفِيَّة على مَا يَأْتِي الْآن عقيب هَذَا الْأَثر، إِنَّمَا قَالَ ذَلِك خوفًا من وُقُوع الظَّن الْفَاسِد لَهما فِي قلبهما، لِأَن الشَّيْطَان يوسوس، فَقَالَ ذَلِك دفعا لذَلِك.