هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
2834 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنِ المُغِيرَةِ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَتَلاَحَقَ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَنَا عَلَى نَاضِحٍ لَنَا ، قَدْ أَعْيَا فَلاَ يَكَادُ يَسِيرُ ، فَقَالَ لِي : مَا لِ بَعِيرِكَ ؟ ، قَالَ : قُلْتُ : عَيِيَ ، قَالَ : فَتَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَزَجَرَهُ ، وَدَعَا لَهُ ، فَمَا زَالَ بَيْنَ يَدَيِ الإِبِلِ قُدَّامَهَا يَسِيرُ ، فَقَالَ لِي : كَيْفَ تَرَى بَعِيرَكَ ؟ ، قَالَ : قُلْتُ : بِخَيْرٍ ، قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَكَتُكَ ، قَالَ : أَفَتَبِيعُنِيهِ ؟ قَالَ : فَاسْتَحْيَيْتُ وَلَمْ يَكُنْ لَنَا نَاضِحٌ غَيْرُهُ ، قَالَ : فَقُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : فَبِعْنِيهِ ، فَبِعْتُهُ إِيَّاهُ عَلَى أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرهِ ، حَتَّى أَبْلُغَ المَدِينَةَ قَالَ : فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي عَرُوسٌ ، فَاسْتَأْذَنْتُهُ ، فَأَذِنَ لِي ، فَتَقَدَّمْتُ النَّاسَ إِلَى المَدِينَةِ حَتَّى أَتَيْتُ المَدِينَةَ ، فَلَقِيَنِي خَالِي ، فَسَأَلَنِي عَنِ البَعِيرِ ، فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا صَنَعْتُ فِيهِ ، فَلاَمَنِي قَالَ : وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لِي حِينَ اسْتَأْذَنْتُهُ : هَلْ تَزَوَّجْتَ بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا ؟ ، فَقُلْتُ : تَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا ، فَقَالَ : هَلَّا تَزَوَّجْتَ بِكْرًا تُلاَعِبُهَا وَتُلاَعِبُكَ ، قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، تُوُفِّيَ وَالِدِي أَوِ اسْتُشْهِدَ وَلِي أَخَوَاتٌ صِغَارٌ فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ مِثْلَهُنَّ ، فَلاَ تُؤَدِّبُهُنَّ ، وَلاَ تَقُومُ عَلَيْهِنَّ ، فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا لِتَقُومَ عَلَيْهِنَّ وَتُؤَدِّبَهُنَّ ، قَالَ : فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَدِينَةَ غَدَوْتُ عَلَيْهِ بِالْبَعِيرِ ، فَأَعْطَانِي ثَمَنَهُ وَرَدَّهُ عَلَيَّ قَالَ المُغِيرَةُ هَذَا فِي قَضَائِنَا حَسَنٌ لاَ نَرَى بِهِ بَأْسًا
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
2834 حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، أخبرنا جرير ، عن المغيرة ، عن الشعبي ، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما ، قال : غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : فتلاحق بي النبي صلى الله عليه وسلم ، وأنا على ناضح لنا ، قد أعيا فلا يكاد يسير ، فقال لي : ما ل بعيرك ؟ ، قال : قلت : عيي ، قال : فتخلف رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فزجره ، ودعا له ، فما زال بين يدي الإبل قدامها يسير ، فقال لي : كيف ترى بعيرك ؟ ، قال : قلت : بخير ، قد أصابته بركتك ، قال : أفتبيعنيه ؟ قال : فاستحييت ولم يكن لنا ناضح غيره ، قال : فقلت : نعم ، قال : فبعنيه ، فبعته إياه على أن لي فقار ظهره ، حتى أبلغ المدينة قال : فقلت : يا رسول الله إني عروس ، فاستأذنته ، فأذن لي ، فتقدمت الناس إلى المدينة حتى أتيت المدينة ، فلقيني خالي ، فسألني عن البعير ، فأخبرته بما صنعت فيه ، فلامني قال : وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال لي حين استأذنته : هل تزوجت بكرا أم ثيبا ؟ ، فقلت : تزوجت ثيبا ، فقال : هلا تزوجت بكرا تلاعبها وتلاعبك ، قلت : يا رسول الله ، توفي والدي أو استشهد ولي أخوات صغار فكرهت أن أتزوج مثلهن ، فلا تؤدبهن ، ولا تقوم عليهن ، فتزوجت ثيبا لتقوم عليهن وتؤدبهن ، قال : فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة غدوت عليه بالبعير ، فأعطاني ثمنه ورده علي قال المغيرة هذا في قضائنا حسن لا نرى به بأسا
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated Jabir bin `Abdullah:

I participated in a Ghazwa along with Allah's Messenger (ﷺ) The Prophet (ﷺ) met me (on the way) while I was riding a camel of ours used for irrigation and it had got so tired that it could hardly walk. The Prophet (ﷺ) asked me, What is wrong with the camel? I replied, It has got tired. So. Allah's Messenger (ﷺ) came from behind it and rebuked it and prayed for it so it started surpassing the other camels and going ahead of them. Then he asked me, How do you find your camel (now)? I replied, I find it quite well, now as it has received your blessings. He said, Will you sell it to me? I felt shy (to refuse his offer) though it was the only camel for irrigation we had. So, I said, Yes. He said, Sell it to me then. I sold it to him on the condition that I should keep on riding it till I reached Medina. Then I said, O Allah's Apostle! I am a bridegroom, and requested him to allow me to go home. He allowed me, and I set out for Medina before the people till I reached Medina, where I met my uncle, who asked me about the camel and I informed him all about it and he blamed me for that. When I took the permission of Allah's Messenger (ﷺ) he asked me whether I had married a virgin or a matron and I replied that I had married a matron. He said, Why hadn't you married a virgin who would have played with you, and you would have played with her? I replied, O Allah's Messenger (ﷺ)! My father died (or was martyred) and I have some young sisters, so I felt it not proper that I should marry a young girl like them who would neither teach them manners nor serve them. So, I have married a matron so that she may serve them and teach them manners. When Allah's Messenger (ﷺ) arrived in Medina, I took the camel to him the next morning and he gave me its price and gave me the camel itself as well.

Jâbir ibn 'Abd Allah () dit: «Je participai une fois avec le Messager de Allah () dans une expédition. Il me rejoignit alors que j'étais sur un chameau de somme qui était fatigué, qui ne pouvait qu'à peine marcher.

":"ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم کو جریر نے خبر دی ، انہیں مغیرہ نے ، انہیں شعبی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ ( جنگ تبوک ) میں شریک تھا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے سے آ کر میرے پاس تشریف لائے ۔ میں اپنے پانی لادنے والے ایک اونٹ پر سوار تھا ۔ چونکہ وہ تھک چکا تھا ، اس لیے آہستہ آہستہ چل رہا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ جابر ! تمہارے اونٹ کو کیا ہو گیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ تھک گیا ہے ۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے گئے اور اسے ڈانٹا اور اس کے لیے دعا کی ۔ پھر تو وہ برابر دوسرے اونٹوں کے آگے آگے چلتا رہا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ، اپنے اونٹ کے متعلق کیا خیال ہے ؟ میں نے کہا کہ اب اچھا ہے ۔ آپ کی برکت سے ایسا ہو گیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا اسے بیچو گے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ میں شرمندہ ہو گیا ، کیونکہ ہمارے پاس پانی لانے کو اس کے سوا اور کوئی اونٹ نہیں رہا تھا ۔ مگر میں نے عرض کیا ، جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر بیچ دے ۔ چنانچہ میں نے وہ اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچ دیا اور یہ طے پایا کہ مدینہ تک میں اسی پر سوار ہو کر جاؤں گا ۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! میری شادی ابھی نئی ہوئی ہے ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( آگے بڑھ کر اپنے گھر جانے کی ) اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت عنایت فرما دی ۔ اس لیے میں سب سے پہلے مدینہ پہنچ آیا ۔ جب ماموں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے اونٹ کے متعلق پوچھا ۔ جو معاملہ میں کر چکا تھا اس کی انہیں اطلاع دی ۔ تو انہوں نے مجھے برا بھلا کہا ۔ ( ایک اونٹ تھا تیرے پاس وہ بھی بیچ ڈالا اب پانی کس پر لائے گا ) جب میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی تھی تو آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا تھا کہ کنواری سے شادی کی ہے یا بیوہ سے ؟ میں نے عرض کیا تھا بیوہ سے اس پر آپ نے فرمایا تھا کہ باکرہ سے کیوں نہ کی ، وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی اور تم بھی اس کے ساتھ کھیلتے ۔ ( کیونکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بھی ابھی کنوارے تھے ) میں نے کہا یا رسول اللہ ! میرے باپ کی وفات ہو گئی ہے یا ( یہ کہا کہ ) وہ ( احد ) میں شہید ہو چکے ہیں اور میری چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں ۔ اس لیے مجھے اچھا نہیں معلوم ہوا کہ انہیں جیسی کسی لڑکی کو بیاہ کے لاوں ، جو نہ انہیں ادب سکھا سکے نہ ان کی نگرانی کر سکے ۔ اس لیے میں نے بیوہ سے شادی کی تاکہ وہ ان کی نگرانی کرے اور انہیں ادب سکھائے ۔ انہوں نے بیان کیا ، پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو صبح کے وقت میں اسی اونٹ پر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس اونٹ کی قیمت عطا فرمائی اور پھر وہ اونٹ بھی واپس کر دیا ۔ مغیرہ راوی رحمہ اللہ نے کہا کہ ہمارے نزدیک بیع میں یہ شرط لگانا اچھا ہے کچھ برا نہیں ۔

Jâbir ibn 'Abd Allah () dit: «Je participai une fois avec le Messager de Allah () dans une expédition. Il me rejoignit alors que j'étais sur un chameau de somme qui était fatigué, qui ne pouvait qu'à peine marcher.

شاهد كل الشروح المتوفرة للحديث

هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  [2967] .

     قَوْلُهُ  إِنِّي عَرُوسٌ فَاسْتَأْذَنْتُهُ فَأَذِنَ لِي وَسَيَأْتِي الْكَلَامُ عَلَى مَا يَتَعَلَّقُ بِتَزْوِيجِهِ فِي النِّكَاحِ تَنْبِيهٌ .

     قَوْلُهُ  فِي آخِرِ هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ الْمُغِيرَةُ هَذَا فِي قَضَائِنَا حَسَنٌ لَا نَرَى بِهِ بَأْسًا هَذَا مَوْصُولٌ بِالْإِسْنَادِ الْمَذْكُور إِلَى الْمُغيرَة وَهُوَ بن مِقْسَمٍ الضَّبِّيِّ أَحَدِ فُقَهَاءِ الْكُوفَةِ وَمُرَادُهُ بِذَلِكَ مَا وَقَعَ مِنْ جَابِرٍ مِنَ اشْتِرَاطِ رُكُوبِ جَمَلِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ وَأَغْرَبَ الدَّاوُدِيُّ فَقَالَ مُرَادُهُ جَوَازُ زِيَادَةِ الْغَرِيمِ عَلَى حَقِّهِ وَأَنَّ ذَلِكَ لَيْسَ خَاصًّا بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقد تعقبه بن التِّينِ بِأَنَّ هَذِهِ الزِّيَادَةَ لَمْ تَرِدْ فِي هَذِه الطَّرِيق هُنَا وَهُوَ كَمَا قَالَ ( قَولُهُ بَابُ مَنْ غَزَا وَهُوَ حَدِيثُ عَهْدٍ بِعِرْسِهِ) بِكَسْرِ الْعَيْنِ أَيْ بِزَوْجَتِهِ وَبِضَمِّهَا أَيْ بِزَمَانِ عُرْسِهِ وَفِي رِوَايَةِ الْكُشْمِيهَنِيِّ بِعُرْسٍ وَهُوَ يُؤَيِّدُ الِاحْتِمَالَ الثَّانِي .

     قَوْلُهُ  فِيهِ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ إِلَى حَدِيثِهِ الْمَذْكُورِ فِي الْبَابِ قَبْلَهُ وَأَنَّ ذَلِكَ فِي بَعْضِ طُرُقِهِ وَسَيَأْتِي فِي أَوَائِلِ النِّكَاحِ مِنْ طَرِيقِ سَيَّارٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ بِلَفْظِ فَقَالَ مَا يُعْجِلُكَ.

.

قُلْتُ كُنْتُ حَدِيثَ عَهْدٍ بِعُرْسٍ الْحَدِيثَ قَولُهُ بَابُ مَنِ اخْتَارَ الْغَزْوَ بَعْدَ الْبِنَاءِ فِيهِ أَبُو هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ إِلَى حَدِيثِهِ الْآتِي فِي الْخُمُسِ مِنْ طَرِيقِ هَمَّامٍ عَنْهُ فَقَالَ غَزَا نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ فَقَالَ لَا يَتْبَعْنِي رَجُلٌ مَلَكَ بُضْعَ امْرَأَةٍ وَلَمَّا يَبْنِ بِهَا الْحَدِيثَ وَسَيَأْتِي شَرْحُهُ هُنَاكَ وَتَرْجَمَ عَلَيْهِ فِي النِّكَاحِ مَنْ أَحَبَّ الْبِنَاءَ بَعْدَ الْغَزْوِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ وَالْغَرَضُ هُنَا مِنْ ذَلِكَ أَنَّ يَتَفَرَّغَ قَلْبُهُ لِلْجِهَادِ وَيُقْبِلَ عَلَيْهِ بِنَشَاطٍ لِأَنَّ الَّذِي يَعْقِدُ عَقْدَهُ عَلَى امْرَأَةٍ يَبْقَى مُتَعَلِّقَ الْخَاطِرِ بِهَا بِخِلَافِ مَا إِذَا دَخَلَ بِهَا فَإِنَّهُ يَصِيرُ الْأَمْرُ فِي حَقِّهِ أَخَفَّ غَالِبًا وَنَظِيرُهُ الِاشْتِغَالُ بِالْأَكْلِ قَبْلَ الصَّلَاةِ تَنْبِيهَانِ أَحَدُهُمَا أَوْرَدَ الدَّاوُدِيُّ هَذِهِ التَّرْجَمَةَ مُحَرَّفَةً ثُمَّ اعْتَرَضَهَا وَذَلِكَ أَنَّهُ وَقَعَ عِنْدَهُ بَابُ مَنِ اخْتَارَ الْغَزْوَ قَبْلَ الْبِنَاءِ فَاعْتَرَضَهُ بِأَنَّ الْحَدِيثَ فِيهِ أَنَّهُ اخْتَارَ الْبِنَاءَ قَبْلَ الْغَزْوِ.

.

قُلْتُ وَعَلَى تَقْدِيرِ صِحَّةِ مَا وَقَعَ عِنْدَ الدَّاوُدِيِّ فَلَا يَلْزَمُهُ الِاعْتِرَاضُ لِأَنَّهُ أَوْرَدَ التَّرْجَمَةَ مَوْرِدَ الِاسْتِفْهَامِ فَكَأَنَّهُ قَالَ مَا حُكْمُ مَنِ اخْتَارَ الْغَزْوَ قَبْلَ الْبِنَاءِ هَلْ يُمْنَعُ كَمَا دَلَّ عَلَيْهِ الْحَدِيثُ أَوْ يَسُوغُ وَيُحْمَلُ الْحَدِيثُ عَلَى الْأَوْلَوِيَّةِ ثَانِيهِمَا قَالَ الْكِرْمَانِيُّ كَأَنَّهُ اكْتَفَى بِالْإِشَارَةِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ لِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ عَلَى شَرْطِهِ.

.

قُلْتُ وَلَمْ يَسْتَحْضِرْ أَنَّهُ أَوْرَدَهُ مَوْصُولًا فِي مَكَانٍ آخَرَ كَمَا سَيَأْتِي قَرِيبًا وَالْجَوَابُ الصَّحِيحُ أَنَّهُ جَرَى عَلَى عَادَتِهِ الْغَالِبَةِ فِي أَنَّهُ لَا يُعِيدُ الْحَدِيثَ الْوَاحِدَ إِذَا اتَّحَدَ مَخْرَجُهُ فِي مَكَانَيْنِ بِصُورَتِهِ غَالِبًا بَلْ يَتَصَرَّفُ فِيهِ بِالِاخْتِصَارِ وَنَحْوِهِ فِي أَحَدِ الْمَوْضِعَيْنِ ( قَولُهُ بَابُ مُبَادَرَةِ الْإِمَامِ عِنْدَ الْفَزَعِ) ذَكَرَ فِيهِ حَدِيثَ أَنَسٍ فِي رُكُوبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسَ أَبِي طَلْحَةَ وَقَدْ تَقَدَّمَالْكَلَامُ عَلَيْهِ فِي الْهِبَةِ وَمَضَى مِرَارًا مِنْهَا فِي بَاب الشجَاعَة فِي الْحَرْب ( قَولُهُ بَابُ السُّرْعَةِ وَالرَّكْضِ فِي الْفَزَعِ) ذَكَرَ فِيهِ حَدِيثَ أَنَسٍ الْمَذْكُورَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ وَقَدْ تَقَدَّمَ وَمُحَمَّدٌ الْمَذْكُورُ فِي إِسْنَادِهِ هُوَ بن سِيرِين قَولُهُ بَابُ الْخُرُوجِ فِي الْفَزَعِ وَحْدَهُ كَذَا ثَبَتَتْ هَذِهِ التَّرْجَمَةُ بِغَيْرِ حَدِيثٍ وَكَأَنَّهُ أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ فِيهِ حَدِيثَ أَنَسٍ الْمَذْكُورَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ فَاخْتُرِمَ قَبْلَ ذَلِكَ قَالَ الْكِرْمَانِيُّ وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ اكْتَفَى بِالْإِشَارَةِ إِلَى الْحَدِيثِ الَّذِي قَبْلَهُ كَذَا قَالَ وَفِيهِ بُعْدٌ وَقَدْ ضَمَّ أَبُو عَلِيِّ بْنُ شَبُّوَيْهِ هَذِهِ التَّرْجَمَةَ إِلَى الَّتِي بَعْدَهَا فَقَالَ بَابُ الْخُرُوجِ فِي الْفَزَعِ وَحْدَهُ وَالْجَعَائِلِ إِلَخْ وَلَيْسَ فِي أَحَادِيثِ بَابِ الْجَعَائِلِ مُنَاسَبَةٌ لِذَلِكَ أَيْضًا إِلَّا أَنَّهُ يُمْكِنُ حَمْلُهُ عَلَى مَا.

.

قُلْتُ أَوَّلًا قَالَ بن بَطَّالٍ جُمْلَةُ مَا فِي هَذِهِ التَّرَاجِمِ أَنَّ الْإِمَامَ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَشِحَّ بِنَفْسِهِ لِمَا فِي ذَلِكَ مِنَ النَّظَرِ لِلْمُسْلِمِينَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مِنْ أَهْلِ الْغَنَاءِ الشَّدِيدِ وَالثَّبَاتِ الْبَالِغِ فَيُحْتَمَلُ أَنْ يَسُوغَ لَهُ ذَلِكَ وَكَانَ فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ مَا لَيْسَ فِي غَيْرِهِ وَلَا سِيَّمَا مَعَ مَا عَلِمَ أَنَّ اللَّهَ يَعْصِمُهُ وَيَنْصُرُهُ( قَولُهُ بَابُ الْجَعَائِلِ وَالْحُمْلَانِ فِي السَّبِيلِ) الْجَعَائِلُ بِالْجِيمِ جَمْعُ جَعِيلَةٍ وَهِيَ مَا يَجْعَلُهُ الْقَاعِدُ مِنَ الْأُجْرَةِ لِمَنْ يَغْزُو عَنْهُ وَالْحُمْلَانُ بِضَمِّ الْمُهْمَلَةِ وَسُكُونِ الْمِيمِ مَصْدَرٌ كَالْحَمْلِ تَقُولُ حَمَلَ حملا وحملانا قَالَ بن بَطَّالٍ إِنْ أَخْرَجَ الرَّجُلُ مِنْ مَالِهِ شَيْئًا فَتَطَوَّعَ بِهِ أَوْ أَعَانَ الْغَازِيَ عَلَى غَزْوِهِ بِفَرَسٍ وَنَحْوِهَا فَلَا نِزَاعَ فِيهِ وَإِنَّمَا اخْتَلَفُوا فِيمَا إِذَا أَجَّرَ نَفْسَهُ أَوْ فَرَسَهُ فِي الْغَزْوِ فَكَرِهَ ذَلِكَ مَالِكٌ وَكَرِهَ أَنْ يَأْخُذَ جُعْلًا عَلَى أَنْ يَتَقَدَّمَ إِلَى الْحِصْنِ وَكَرِهَ أَصْحَابُ أَبِي حَنِيفَةَ الْجَعَائِلَ إِلَّا إِنْ كَانَ بِالْمُسْلِمِينَ ضَعْفٌ وَلَيْسَ فِي بَيْتِ الْمَالِ شَيْءٌ وَقَالُوا إِنْ أَعَانَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا جَازَ لَا عَلَى وَجْهِ الْبَدَلِ.

     وَقَالَ  الشَّافِعِيُّ لَا يَجُوزُ أَنْ يَغْزُوَ بِجُعْلٍ يَأْخُذُهُ وَإِنَّمَا يَجُوزُ مِنَ السُّلْطَانِ دُونَ غَيْرِهِ لِأَنَّ الْجِهَادَ فَرْضُ كِفَايَةٍ فَمَنْ فَعَلَهُ وَقَعَ عَنِ الْفَرْضِ وَلَا يَجُوزُ أَنْ يَسْتَحِقَّ عَلَى غَيْرِهِ عِوَضًا انْتَهَى وَيُؤَيِّدُهُ مَا رَوَاهُ عبد الرَّزَّاق من طَرِيق بن سِيرِين عَن بن عُمَرَ قَالَ يُمَتِّعُ الْقَاعِدُ الْغَازِيَ بِمَا شَاءَ فَأَمَّا أَنَّهُ يَبِيعُ غَزْوَهُ فَلَا وَمِنْ وَجْهٍ آخر عَن بن سِيرِين سُئِلَ بن عُمَرَ عَنِ الْجَعَائِلِ فَكَرِهَهُ.

     وَقَالَ  أَرَى الْغَازِيَ يَبِيعُ غَزْوَهُ وَالْجَاعِلَ يَفِرُّ مِنْ غَزْوِهِ وَالَّذِي يَظْهَرُ أَنَّ الْبُخَارِيَّ أَشَارَ إِلَى الْخِلَافِ فِيمَا يَأْخُذُهُ الْغَازِي هَلْ يَسْتَحِقُّهُ بِسَبَبِ الْغَزْوِ فَلَا يَتَجَاوَزُهُ إِلَى غَيْرِهِ أَوْ يَمْلِكُهُ فَيَتَصَرَّفُ فِيهِ بِمَا شَاءَ كَمَا سَيَأْتِي بَيَانُ ذَلِكَ .

     قَوْلُهُ .

     وَقَالَ  مُجَاهِدٌ.

.

قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ الْغَزْوَ هُوَ بِالنَّصْبِ عَلَى الْإِغْرَاءِ وَالتَّقْدِيرُ عَلَيْكَ الْغَزْوَ أَوْ عَلَى حَذْفِ فِعْلٍ أَيْ أُرِيدُ الْغَزْوَ وَفِي رِوَايَةِ الْكُشْمِيهَنِيِّ أَتَغْزُو بِالِاسْتِفْهَامِ وَهَذَا الْأَثَرُ وَصَلَهُ فِي الْمَغَازِي فِي غَزْوَةِ الْفَتْحِ بِمَعْنَاهُ وَسَيَأْتِي بَيَانه هُنَاكَ وَنبهَ بِهِ على مُرَاد بن عمر بالأثر الَّذِي رَوَاهُ عَنهُ بن سِيرِينَ وَأَنَّهُ لَا يُكْرَهُ إِعَانَةُ الْغَازِي .

     قَوْلُهُ .

     وَقَالَ  عمر الخ وَصله بن أَبِي شَيْبَةَ مِنْ طَرِيقِ أَبِي إِسْحَاقَ سُلَيْمَانَ الشَّيْبَانِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ قُرَّةَ قَالَ جَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ إِنَّ نَاسًا فَذَكَرَ مِثْلَهُ قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ فَقُمْتُ إِلَى أُسَيْرِ بْنِ عَمْرٍو فَحَدَّثْتُهُ بِمَا قَالَ فَقَالَ صَدَقَ جَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ بِذَلِكَ وَأَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ فِي تَارِيخِهِ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَهُوَ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ قَوْله.

     وَقَالَ  طَاوس وَمُجاهد الخ وَصله بن أَبِي شَيْبَةَ بِمَعْنَاهُ عَنْهُمَا ثُمَّ أَوْرَدَ الْمُصَنِّفُ فِي الْبَابِ ثَلَاثَةَ أَحَادِيثَ أَحَدُهَا حَدِيثُ عُمَرَ فِي قِصَّةِ الْفَرَسِ الَّذِي حَمَلَ عَلَيْهِ فَوَجَدَهُ يُبَاعُ الْحَدِيثَ وَقَدْ تَقَدَّمَ شَرْحُهُ فِي الْهِبَةِ ثَانِيهَا حَدِيث بن عُمَرَ فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ نَفْسِهَا وَقَدْ تَقَدَّمَ أَيْضًا ثَالِثُهَا حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي التَّحْرِيضِ عَلَى الْغَزْوِ وَقَدْ تَقَدَّمَ فِي أَوَّلِ الْجِهَادِ وَوَجْهُ دُخُولِ قِصَّةِ فَرَسِ عُمَرَ مِنْ جِهَةِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَرَّ الْمَحْمُولَ عَلَيْهِ عَلَى التَّصَرُّفِ فِيهِ بِالْبَيْعِ وَغَيْرِهِ فَدَلَّ عَلَى تَقْوِيَةِ مَا ذَهَبَ إِلَيْهِ طَاوُسٌ مِنْ أَنَّ لِلْآخِذِ التَّصَرُّفُ فِي الْمَأْخُوذِ.

     وَقَالَ  بن الْمُنِيرِ كُلُّ مَنْ أَخَذَ مَالًا مِنْ بَيْتِ الْمَالِ عَلَى عَمَلٍ إِذَا أَهْمَلَ الْعَمَلَ يَرُدُّ مَا أَخَذَ وَكَذَا الْأَخْذُ عَلَى عَمَلٍ لَا يَتَأَهَّلُ لَهُ وَيَحْتَاجُ إِلَى تَأْوِيلِ مَا ذَهَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ فِي الْأَمْرِ الْمَذْكُورِ بِأَنْ يُحْمَلَ عَلَى الْكَرَاهَةِ وَقَدْ قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ مَنْ أَعَانَ بِشَيْءٍ فِي الْغَزْوِ فَإِنَّهُ لِلَّذِي يعطاه إِذا بلغأَوْ مَنْ يُقِيمُهُ لِذَلِكَ عِنْدَ الْحَرْبِ وَقَدْ تَقَدَّمَ حَدِيثُ أَنَسٍ أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ فَأُصِيبَ ثُمَّ أَخَذَهَا جَعْفَرٌ فَأُصِيبَ الْحَدِيثَ وَيَأْتِي تَمَامُ شَرْحِهِ فِي الْمَغَازِي إِنْ شَاءَ الله تَعَالَى أَيْضا ( قَولُهُ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ) وَقَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرعب قَالَهُ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ إِلَى حَدِيثِهِ الَّذِي أَوَّلُهُ أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلِي فَإِنَّ فِيهِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ وَقَدْ تَقَدَّمَ شَرْحُهُ فِي التَّيَمُّمِ وَوَقَعَ فِي الطَّبَرَانِيِّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ شَهْرًا أَوْ شَهْرَيْنِ وَلَهُ مِنْ حَدِيثِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ شَهْرًا أَمَامِي وَشَهْرًا خَلْفِي وَظَهَرَ لِي أَنَّ الْحِكْمَةَ فِي الِاقْتِصَارِ عَلَى الشَّهْرِ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْمَمَالِكِ الْكِبَارِ الَّتِي حَوْلَهُ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ كَالشَّامِ وَالْعِرَاقِ وَالْيَمَنِ وَمِصْرَ لَيْسَ بَيْنَ الْمَدِينَةِ النَّبَوِيَّةِ لِلْوَاحِدَةِ مِنْهَا إِلَّا شَهْرٌ فَمَا دُونَهُ وَدَلَّ حَدِيثُ السَّائِبِ عَلَى أَنَّ التَّرَدُّدَ فِي الشَّهْرِ وَالشَّهْرَيْنِ إِمَّا أَنْ يَكُونَ الرَّاوِي سَمِعَهُ كَمَا فِي حَدِيثِ السَّائِبِ وَإِمَّا أَنَّهُ لَا أَثَرَ لِتَرَدُّدِهِ وَحَدِيثُ السَّائِبِ لَا يُنَافِي حَدِيثَ جَابِرٍ وَلَيْسَ الْمُرَادُ بِالْخُصُوصِيَّةِ مُجَرَّدُ حُصُولِ الرُّعْبِ بَلْ هُوَ وَمَا يَنْشَأُ عَنْهُ مِنَ الظَّفَرِ بِالْعَدُوِّ ثُمَّ ذَكَرَ الْمُصَنِّفُ فِي الْبَابِ حَدِيثَيْنِ أَحَدُهُمَا حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ الَّذِي أَوَّلُهُ بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ وَفِيهِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُوتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ وَسَيَأْتِي شَرْحُهُ مُسْتَوْفًى فِي كِتَابِ التَّعْبِيرِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى وَجَوَامِعُ الْكَلِمِ الْقُرْآنُ فَإِنَّهُ تَقَعُ فِيهِ الْمَعَانِي الْكَثِيرَةُ بِالْأَلْفَاظِ الْقَلِيلَةِ وَكَذَلِكَ يَقَعُ فِي الْأَحَادِيثِ النَّبَوِيَّةِ الْكَثِيرُ مِنْ ذَلِكَ وَمَفَاتِيحُ خَزَائِنِ الْأَرْضِ الْمُرَادُ مِنْهَا مَا يُفْتَحُ لِأُمَّتِهِ مِنْ بَعْدِهِ مِنَ الْفُتُوحِ وَقِيلَ الْمَعَادِنُ وَقَوْلُ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَنْتُمْ تَنْتَثِلُونَهَا بِوَزْنِ تَفْتَعِلُونَهَا مِنَ النَّثْلِ بِالنُّونِ وَالْمُثَلَّثَةِ أَيْ تَسْتَخْرِجُونَهَا تَقُولُ نَثَلْتُ الْبِئْرَ إِذَا اسْتَخْرَجْتَ تُرَابَهَا ثَانِيهِمَا حَدِيثُ أَبِي سُفْيَانَ فِي قِصَّةِ هِرَقْلَ ذَكَرَ طَرَفًا مِنْهَا وَقَدْ تَقَدَّمَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ بِطُولِهِ فِي بَدْءِ الْوَحْيِ وَالْغَرَضُ مِنْهُ هُنَا

هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  ( قَولُهُ بَابُ اسْتِئْذَانِ الرَّجُلِ)
أَيْ مِنَ الرَّعِيَّةِ الْإِمَامَ أَيْ فِي الرُّجُوعِ أَوِ التَّخَلُّفِ عَنِ الْخُرُوجِ أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ .

     قَوْلُهُ  إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ قَالَ بن التِّينِ هَذِهِ الْآيَةُ احْتَجَّ بِهَا الْحَسَنُ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَذْهَبَ مِنَ الْعَسْكَرِ حَتَّى يَسْتَأْذِنَ الْأَمِيرَ وَهَذَا عِنْدَ سَائِرِ الْفُقَهَاءِ كَانَ خَاصًّا بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَا قَالَ وَالَّذِي يَظْهَرُ أَنَّ الْخُصُوصِيَّةَ فِي عُمُومِ وُجُوبِ الِاسْتِئْذَانِ وَإِلَّا فَلَوْ كَانَ مِمَّنْ عَيَّنَهُ الْإِمَامُ فَطَرَأَ لَهُ مَا يَقْتَضِي التَّخَلُّفَ أَوِ الرُّجُوعَ فَإِنَّهُ يَحْتَاجُ إِلَى الِاسْتِئْذَانِ ثُمَّ أَوْرَدَ فِيهِ حَدِيثَ جَابِرٍ فِي قِصَّةِ جَمَلِهِ وَقَدْ تَقَدَّمَ شَرْحُهُ فِي كِتَابِ الشُّرُوطِ وَالْغَرَضُ مِنْهُ هُنَا

[ قــ :2834 ... غــ :2967] .

     قَوْلُهُ  إِنِّي عَرُوسٌ فَاسْتَأْذَنْتُهُ فَأَذِنَ لِي وَسَيَأْتِي الْكَلَامُ عَلَى مَا يَتَعَلَّقُ بِتَزْوِيجِهِ فِي النِّكَاحِ تَنْبِيهٌ .

     قَوْلُهُ  فِي آخِرِ هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ الْمُغِيرَةُ هَذَا فِي قَضَائِنَا حَسَنٌ لَا نَرَى بِهِ بَأْسًا هَذَا مَوْصُولٌ بِالْإِسْنَادِ الْمَذْكُور إِلَى الْمُغيرَة وَهُوَ بن مِقْسَمٍ الضَّبِّيِّ أَحَدِ فُقَهَاءِ الْكُوفَةِ وَمُرَادُهُ بِذَلِكَ مَا وَقَعَ مِنْ جَابِرٍ مِنَ اشْتِرَاطِ رُكُوبِ جَمَلِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ وَأَغْرَبَ الدَّاوُدِيُّ فَقَالَ مُرَادُهُ جَوَازُ زِيَادَةِ الْغَرِيمِ عَلَى حَقِّهِ وَأَنَّ ذَلِكَ لَيْسَ خَاصًّا بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقد تعقبه بن التِّينِ بِأَنَّ هَذِهِ الزِّيَادَةَ لَمْ تَرِدْ فِي هَذِه الطَّرِيق هُنَا وَهُوَ كَمَا قَالَ

هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  باب اسْتِئْذَانِ الرَّجُلِ الإِمَامَ لِقَوْلِهِ: { إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ} [النور: 62] إِلَى آخِرِ الآيَةِ
( باب استئذان الرجل) من الرعية ( الإمام) في الرجوع أو التخلف عن الرجوع في الغزو
( لقوله) زاد في رواية: عز وجل ( { إنما المؤمنون} ) الكاملون في الإيمان ( { الذين آمنوا بالله ورسوله} ) من صميم قلوبهم ( { وإذا كانوا معه على أمرٍ جامع} ) كتدبير أمر الجهاد والحرب ( { لم يذهبوا} ) عن حضرته ( { حتى يستأذنوه} ) -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فيأذن لهم واعتباره في كمال الإيمان لأنه كالمصداق لصحته والمميز للمخلص فيه عن المنافق ( { إن الذين يستأذنونك} ) [النور: 62] ( إلى آخر الآية) .
يفيد أن المستأذن مؤمن لا محالة.
وأن الذاهب بغير إذنه ليس كذلك وفيه أن الإمام إذا جمع الناس لتدبير أمر من أمور المسلمين أن لا يرجعوا إلا بإذنه وكذلك إذا خرجوا للغزو لا ينبغي لأحد أن يرجع بغير إذنه ولا يخالف أمير السرية لا يقال لا يستأذن غيره عليه الصلاة والسلام إذ الحكم السابق من خصوصياته عليه الصلاة والسلام لأنه إذا كان ممن عيّنه الإمام فطرأ له ما يقتضي التخلف أو الرجوع فإنه يحتاج إلى الاستئذان والاحتجاج بالآية للترجمة في تمام الآية، { فإذا استأذنوك لبعض شأنهم فأذن لمن شئت منهم} .
قال مقاتل: نزلت في عمر -رضي الله عنه- استأذن في الرجوع إلى أهله في غزوة تبوك فأذن له وقال: انطلق لست بمنافق يريد بذلك تسميع المنافقين، ولأبي ذر على أمر جامع الآية، ولأبي عساكر إلى قوله تعالى: { إن الله غفور رحيم} .


[ قــ :2834 ... غــ : 2967 ]
- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ عَنِ الْمُغِيرَةِ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ -رضي الله عنهما- قَالَ: "غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، قَالَ، فَتَلاَحَقَ بِي النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَأَنَا عَلَى نَاضِحٍ لَنَا قَدْ أَعْيَا فَلاَ يَكَادُ يَسِيرُ، فَقَالَ لِي: مَا لِبَعِيرِكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: أعْيَا.
قَالَ: فَتَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَزَجَرَهُ وَدَعَا لَهُ، فَمَا زَالَ بَيْنَ يَدَي الإِبِلِ قُدَّامَهَا يَسِيرُ، فَقَالَ لِي: كَيْفَ تَرَى بَعِيرَكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: بِخَيْرٍ، قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَكَتُكَ.
قَالَ: أَفَتَبِيعُنِيهِ قَالَ: فَاسْتَحْيَيْتُ، لَمْ يَكُنْ لَنَا نَاضِحٌ غَيْرَهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ.
قَالَ: فَبِعْنِيهِ، فَبِعْتُهُ إِيَّاهُ عَلَى أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرِهِ حَتَّى أَبْلُغَ الْمَدِينَةَ.
قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي عَرُوسٌ، فَاسْتَأْذَنْتُهُ فَأَذِنَ لِي، فَتَقَدَّمْتُ النَّاسَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَلَقِيَنِي خَالِي فَسَأَلَنِي عَنِ الْبَعِيرِ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا صَنَعْتُ بهِ فَلاَمَنِي.
قَالَ وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ لِي حِينَ اسْتَأْذَنْتُهُ: هَلْ تَزَوَّجْتَ بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا؟ فَقُلْتُ: تَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا.
فَقَالَ: فَهَلاَّ تَزَوَّجْتَ بِكْرًا تُلاَعِبُهَا وَتُلاَعِبُكَ؟.

.

قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُوُفِّيَ وَالِدِي -أَوِ اسْتُشْهِدَ- وَلِي أَخَوَاتٌ صِغَارٌ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ مِثْلَهُنَّ فَلاَ تُؤَدِّبُهُنَّ وَلاَ تَقُومُ عَلَيْهِنَّ، فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا لِتَقُومَ عَلَيْهِنَّ وَتُؤَدِّبَهُنَّ.
قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- الْمَدِينَةَ غَدَوْتُ عَلَيْهِ بِالْبَعِيرِ، فَأَعْطَانِي ثَمَنَهُ وَرَدَّهُ عَلَىَّ" قَالَ الْمُغِيرَةُ: هَذَا فِي قَضَائِنَا حَسَنٌ لاَ نَرَى بِهِ بَأْسًا.

وبه قال: ( حدّثنا إسحاق بن إبراهيم) بن راهويه قال: ( أخبرنا جرير) بالجيم هو ابن عبد الحميد بن قرط بضم القاف وسكون الراء بعدها طاء مهملة الضبي الكوفي ( عن المغيرة) بن مقسم بكسر الميم ( عن الشعبي) عامر بن شراحيل ( عن جابر بن عبد الله) الأنصاري ( -رضي الله عنهما- قال: غزوت مع رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) غزوة تبوك كما في البخاري أو ذات الرقاع كما في طبقات
ابن سعد أو الفتح كما في مسلم بلفظ: أقبلنا من مكة إلى المدينة ( قال: فتلاحق بي النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وأنا على ناضح لنا) بنون وضاد معجمة بعير يستقى عليه وسمي بذلك لنضحه بالماء حال سقيه وعند البزار أنه كان أحمر ( قد أعيا) بهمزة مفتوحة قبل العين الساكنة أي تعب وعجز عن المشي ( فلا يكاد يسير فقال لي) عليه الصلاة والسلام:
( ما لبعيرك) ( قال: قلت عيى) ولأبي ذر عن الكشميهين: أعيا بالهمزة قبل العين ( قال: فتخلف رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) ولأبي ذر سقوط التصلية ( فزجره ودعا له) ولمسلم وأحمد فضربه برجله ودعا له وفي رواية يونس بن بكير عن زكريا عند الإسماعيلي فضربه رسول الله عليه الصلاة والسلام ودعا له فمشى مشية ما مشى قبل ذلك مثلها ( فما زال بين يدي الإبل قدامها يسير، فقال لي) عليه الصلاة والسلام: ( كيف ترى بعيرك) ( قال: قلت: بخير قد أصابته بركتك قال) : ( فتبيعنيه) بنون وتحتية بعد العين ولابن عساكر: أفتبيعه بإسقاطهما ( قال: فاستحييت) منه ( ولم يكن لنا ناضح غيره قال: قلت) له عليه الصلاة والسلام ( نعم.
قال)
( فبعنيه) زاد في الشروط بأوقية ( فبعته إياه على أن لي فقار ظهره) بفتح الفاء خرزات عظام الظهر وهي مفاصل عظامه أي على أن لي الركوب عليه ( حتى) أي إلى أن ( أبلغ المدينة) وفي الشروط وغيره فاستثنيت حملانه إلى أهله بضم الحاء أي الحمل والمفعول محذوف أي حملانه إياي أو متاعي أو نحو ذلك فالمصدر مضاف للفاعل، واختلف في جواز بيع الدابة بشرط ركوب البائع فجوّزه المؤلّف لكثرة رواية الاشتراط وعليه أحمد، وجوّزه مالك إذا كانت المسافة قريبة ومنعه الشافعي وأبو حنيفة مطلقًا لحديث النهي عن بيع وشرط.

وأجيب عن هذا الحديث: بأنه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لم يرد حقيقة البيع بل أراد أن يعطيه الثمن بهذه الصورة أو أن الشرط لم يكن في نفس العقد بل كان سابقًا أو لاحقًا فلم يؤثر في العقد، ووقع عند النسائي أخذته بكذا وأعرتك ظهره إلى المدينة فزال الإشكال، لكن اختلف فيها حماد بن زيد وسفيان بن عيينة وحماد أعرف بحديث أيوب من سفيان، والحاصل أن الذين ذكروه بصيغة الاشتراط أكثر عددًا من الذين خالفوهم، وهذا وجه من وجوه الترجيح فيكون أصح ويترجح أيضًا بأن الذين رووه بصيغة الاشتراط معهم زيادة وهم حفاظ فيكون حجة.

( قال: فقلت: يا رسول الله إني عروس) يستوي فيه الذكر والأنثى وفي النكاح قريب عهد بعرس أي قريب عهد بالدخول على المرأة ( فاستأذنته) عليه الصلاة والسلام في التقدم ( فأذن لي فتقدمت الناس إلى المدينة حتى أتيت المدينة فلقيني خالي) اسمه ثعلبة بن عنمة بن عدي بن سنان وله خال آخر اسمه عمرو بن عنمة، وعند ابن عساكر: اسمه الجدّ بفتح الجيم وتشديد الدال ابن قيس وقد ذكروا أنه خاله من جهة مجازية فيحتمل أن يكون الذي لامه على بيع الجمل أيضًا لأنه كان يتهم بالنفاق بخلاف ثعلبة وعمرو ابني عنمة ( فسألني عن البعير فأخبرته بما صنعت فيه) ولأبي ذر: صنعت به ( فلامني) على بيعه من جهة أنه ليس لنا ناضح غيره، ولأحمد من رواية نبيح بضم النون
وفتح الموحدة آخره حاء مهملة فأتيت عمتي بالمدينة فقلت لها: ألم ترى أني بعت ناضحنا فما رأيت أعجبها ذلك.
الحديث.
واسمها هند بنت عمرو، ويحتمل أنهما جميعًا لم يعجبهما بيعه لما ذكر من أنه لم يكن عنده ناضح غيره.

( قال: وقد كان رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قال لي حين استأذنته) في التقدم إلى المدينة ( هل تزوجت بكرًا أم) تزوجت ( ثيبًا) قال ابن مالك في توضيحه فيه شاهد على أن هل قد تقع موقع الهمزة المستفهم بها عن التعيين فتكون أم بعدها متصلة غير منقطعة لأن استفهام النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- جابرًا لم يكن إلا بعد علمه بتزوجه إما بكرًا وإما ثيبًا فطلب منه الإعلام بالتعيين كما كان يطلب بأي فالموضع إذًا موضع الهمزة لكن استغنى عنها بهل وثبت بذلك أن أم المتصلة قد تقع بعد هل كما تقع بعد الهمزة اهـ.

وتعقبه في المصابيح فقال: يمكن أن يقال: لا نسلم أنها في الحديث متصلة ولم لا يجوز أن تكون منقطعة.
وثيبًا مفعول بفعل محذوف فاستفهم أوّلاً ثم أضرب واستفهم ثانيًا، والتقدير: أتزوجت ثيبًا؟ قال: ولا شك أن المصير إلى هذا أولى لما في الأول من إخراج عما عهد فيها من كونها لا تعادل إلا الهمزة.

( فقلت) له عليه الصلاة والسلام ( تزوجت ثيبًا) هي سهيلة بنت معوذ الأوسية ( فقال) : عليه الصلاة والسلام بفاء قبل القاف ( هلا) بغير فاء قبل الهاء ولأبي ذر قال: فهلا ( تزوجت بكرًا تلاعبها وتلاعبك) المراد الملاعبة المشهورة بدليل مجيئه في رواية أخرى بلفظ: تضاحكها وتضاحكك ( فقلت: يا رسول الله توفي والدي أو استشهد ولي أخوات صغار) ولمسلم قلت: إن عبد الله هلك وترك تسع بنات ( فكرهت أن أتزوج مثلهن فلا تؤدبهن) بالرفع، ولأبي ذر: فلا تؤدبهن بالنصب ( ولا تقوم) بالرفع، ولأبي ذر: ولا تقوم بالنصب ( عليهن فتزوجت ثيبًا لتقوم عليهن وتؤدبهن) بالرفع ولأبي ذر بالنصب ( قال: فلما قدم رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- المدينة غدوت عليه بالبعير فأعطاني ثمنه وردّه) أي البعير ( عليّ) فحصل لجابر الثمن والمثمن معًا.
وفي رواية معمر الماضية في الاستقراض فأعطاني ثمن الجمل والجمل وسهمي مع القوم وكلها بطريق المجاز لأن العطية إنما كانت بواسطة بلال كما رواه مسلم من هذا الوجه، فلما قدمت المدينة قال لبلال: "أعطه أوقية من ذهب" قال: فأعطاني أوقية وزادني قيراطًا فقلت: لا تفارقني زيادة رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-.

( قال المغيرة) المذكور بالسند السابق أو هو من التعليقات ( هذا) أي البيع بمثل هذا الشرط ( في قضائنا) حكمنا ( حسن لا نرى به بأسًا) لأنه أمر معلوم لا خداع فيه ولا موجب للنزاع.

وهذا الحديث ذكره المؤلّف في عشرين موضعًا، وأخرجه مسلم وأبو داود والترمذي والنسائي.

هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  ( بابُُ اسْتِئْذَانِ الرَّجَلِ الإمَامَ)

أَي: هَذَا بابُُ فِي بَيَان حكم استيذان الرجل من الرّعية، أَي: طلبه الْإِذْن من الإِمَام فِي الرُّجُوع أَو التَّخَلُّف عَن الْخُرُوج أَو نَحْو ذَلِك.

لِقَوْلِهِ عَزَّ وجَلَّ: { إنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّه ورسُولِهِ وإذَا كانُوا معَهُ علَى أمْرٍ جامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتأذِنُوهُ إنَّ الَّذِينَ يَسْتأذِنُونَكَ} ( النُّور: 26) .
إِلَى آخر الْآيَة
هَذِه الْآيَة الْكَرِيمَة فِي سُورَة النُّور، وتمامها: { أُولَئِكَ الَّذين يُؤمنُونَ بِاللَّه وَرَسُوله فَإِذا استأذنوك لبَعض شَأْنهمْ فاذن لمن شِئْت مِنْهُم واستغفر لَهُم الله إِن الله غَفُور رَحِيم} ( النُّور: 26) .
والاحتجاج بهَا فِي قَوْله: { فَإِذا استأذنوك لبَعض شَأْنهمْ فَأذن لمن شِئْت مِنْهُم} ( النُّور: 26) .
وَوجه ذَلِك أَن الله تَعَالَى جعل ترك ذهابهم عَن مجْلِس رَسُول الله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم حَتَّى يستأذنوه ثَالِث الْإِيمَان بِاللَّه، وَالْإِيمَان بِرَسُولِهِ وجعلهما كالتسبب لَهُ والبساط لذكره، وَذَلِكَ مَعَ تصدير الْجُمْلَة بإنما، وإيقاع الْمُؤمنِينَ مُبْتَدأ مخبرا عَنهُ بموصول أحاطت صلته بِذكر الإيمانين، ثمَّ عقبه بِمَا يزِيدهُ توكيداً وتشديداً حَيْثُ أَعَادَهُ على أسلوب آخر وَهُوَ قَوْله: { إِن الَّذين يَسْتَأْذِنُونَك أُولَئِكَ الَّذين يُؤمنُونَ بِاللَّه وَرَسُوله} ( النُّور: 26) .
وَالْمرَاد بِالْأَمر الْجَامِع: الطَّاعَة يَجْتَمعُونَ عَلَيْهِ نَحْو: الْجُمُعَة والنحر وَالْفطر وَالْجهَاد وَأَشْبَاه ذَلِك.
قَوْله: { لم يذهبوا حَتَّى يستأذنواه} ( النُّور: 26) .
قَالَ الْمُفَسِّرُونَ: كَانَ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِذا صعد الْمِنْبَر يَوْم الْجُمُعَة وَأَرَادَ الرجل أَن يخرج من الْمَسْجِد لحَاجَة أَو عذر لم يخرج حَتَّى يسْتَأْذن، أَي: يقوم فيراه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَيعرف أَن لَهُ حَاجَة، فَيَأْذَن لَهُ، قَالَ مُجَاهِد: وَإِذن الإِمَام يَوْم الْجُمُعَة أَن يُشِير بِيَدِهِ، وَلم يَأْمُرهُ الله تَعَالَى بِالْإِذْنِ لكلهم، بل قَالَ: { فاذن لمن شِئْت} ( النُّور: 26) .
قَالَ مقَاتل: نزلت فِي عمر رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، اسْتَأْذن فِي الرُّجُوع إِلَى أَهله فِي غَزْوَة تَبُوك، فَأذن لَهُ..
     وَقَالَ : انْطلق مَا أَنْت بمنافق، يُرِيد بذلك تسميع الْمُنَافِقين..
     وَقَالَ  الْمُهلب: هَذِه الْآيَة أصل أَن لَا يبرح أحد من السُّلْطَان إِذا جمع النَّاس لأمر من أُمُور الْمُسلمين يحْتَاج فِيهِ إِلَى اجْتِمَاعهم إلاَّ بِإِذْنِهِ، فَإِن رأى أَن يَأْذَن لَهُ أذن وإلاَّ لم يَأْذَن لَهُ.



[ قــ :2834 ... غــ :2967 ]
- حدَّثنا إسْحَاقُ بنُ إبْرَاهِيمَ قَالَ أخبرنَا جَرِيرٌ عنِ المُغِيرَةِ عنِ الشَّعْبِيِّ عنْ جابِرِ ابنِ عَبْدِ الله رَضِي الله تَعَالَى عنهُما قَالَ غَزَوْتُ معَ رسولِ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ فتَلاحَقَ بِيَ النبيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَأَنا علَى ناضِحٍ لَنا قَدْ أعْيَا فَلاَ يَكادُ يَسِيرُ فَقَالَ لي مَا لِبَعِيرِكَ قَالَ.

.

قُلْتُ عَيِيَ قَالَ فتَخَلَّفَ رسولُ الله فَزَجَرَهُ ودعا لَهُ فَما زَالَ بَيْنَ يَدَيِ الإبِلِ قدَّامُها يَسِيرُ فَقَالَ لي كَيْفَ تَرَى بَعِيرَكَ قَالَ.

.

قُلْتُ بِخَيْرٍ قَدْ أصَابَتْهُ برَكَتُكَ قَالَ أفَتَبِيعُنِيهِ قَالَ فاسْتَحْيَيْتُ ولَمْ يَكُنْ لَنا ناضِحٌ غَيْرَهُ قَالَ فَقُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَبِعْنِيهِ فبِعْتُهُ إيَّاهُ علَى أنَّ لِي فِقارَ ظَهْرِهِ حتَّى أبْلُغَ المَدِينَةِ قالَ فَقُلْتُ يَا رسولَ الله أنِّي عَرُوسَّ فاسْتأذَنْتُهُ فأذِنَ لِي فتَقَدَّمْتُ النَّاسَ إلَى المَدِينَةِ حَتَّى أتَيْتُ المَدِينَةَ فلَقِيَنِي خَالِي فسَألَنِي عنِ البَعِيرِ فأخْبَرْتُهُ بِمَا صَنَعْتُ فِيهِ فَلاَمَنِي قَالَ وقَدْ كانَ رسولُ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ لي حِينَ اسْتأذَنْتُهُ هَلْ تَزَوَّجْتَ بِكْراً أمْ ثَيِّبَاً فقُلْتُ تَزَوَّجْتُ ثَيِّباً فَقال هَلاَّ تَزَوَّجْتَ بِكْرَاً تُلاعِبُهَا وتُلاعِبُكَ.

.

قُلْتُ يَا رسولَ الله تُوُفِّيَ والِدِي أوِ اسْتُشْهِدَ ولِي أخَوَاتٌ صِغَارٌ فَكَرِهْتُ أنْ أتَزَوَّجَ مِثْلَهُنَّ فلاَ تُؤَدِّبُهُنَّ ولاَ تَقُومُ عَلَيْهِنَّ فتَزَوَّجْتُ ثَيِّباً لِتَقُومَ عَلَيْهِنَّ وتُؤَدِّبُهُنَّ قَالَ فَلَمَّا قَدِمَ رسولُ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم المَدِينَةَ غَدَوْتُ علَيْهِ بالبَعِيرِ فأعْطَانِي ثَمَنَهُ ورَدَّهُ علَيَّ..
مطابقته للتَّرْجَمَة فِي قَوْله: ( إِنِّي عروس فاستأذنته فَأذن لي) ، وَإِسْحَاق بن إِبْرَاهِيم الْمَعْرُوف بِابْن رَاهَوَيْه، وَجَرِير هُوَ بن عبد الحميد، والمغيرة هُوَ مقسم الضَّبِّيّ أحد فُقَهَاء الْكُوفَة، وَالشعْبِيّ هُوَ عَامر.

والْحَدِيث قد مر مطولا ومختصراً فِي الاستقراض وَفِي الشُّرُوط، وَمضى الْكَلَام فِيهِ مستقصىً.

قَوْله: ( نَاضِح) أَي: بعير يستقى عَلَيْهِ المَاء.
قَوْله: ( أعيى) ، أَي: تَعب وَعجز، وَكَذَلِكَ: عيى، كِلَاهُمَا بِمَعْنى.
قَوْله: ( فقار ظَهره) ، بِكَسْر الْفَاء، وَهِي خَرَزَات عِظَام الظّهْر، أَي: على أَن لي الرّكُوب عَلَيْهِ إِلَى الْمَدِينَة.
قَوْله: ( عروس) ، يَسْتَوِي فِيهِ الرجل وَالْمَرْأَة.
قَوْله: ( لامني) أَي: على بيع الناضح، إِذْ لم يكن لَهُ غَيره.
قَوْله: ( ورده) أَي: الْجمل، فَحصل لَهُ الثّمن والمثمن كِلَاهُمَا.

قَالَ المُغِيرَةُ هذَا فِي قَضائِنا حَسَنٌ لاَ نَرَى بِهِ بَأْسا

الْمُغيرَة هُوَ الْمَذْكُور فِي إِسْنَاد الحَدِيث، وَظَاهره تَعْلِيق.
قَالَ بَعضهم: هُوَ مَوْصُول بِالْإِسْنَادِ الْمَذْكُور إِلَى الْمُغيرَة، وَفِيه نظر لَا يخفى.
قَوْله: هَذَا، أَي: البيع بِمثل هَذَا الشَّرْط حسن فِي حكمنَا بِهِ لَا بَأْس بِمثلِهِ، لِأَنَّهُ أَمر مَعْلُوم لَا خداع فِيهِ وَلَا مُوجب للنزاع..
     وَقَالَ  الدَّاودِيّ: مُرَاده جَوَاز زِيَادَة الْغَرِيم على حَقه تأسياً برَسُول الله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، ورد عَلَيْهِ ابْن التِّين: بِأَنَّهُ لم يذكر فِيهِ أَنه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَضَاهُ وزاده.