هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
3457 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : أَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ تَمْشِي كَأَنَّ مِشْيَتَهَا مَشْيُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَرْحَبًا بِابْنَتِي ثُمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ يَمِينِهِ ، أَوْ عَنْ شِمَالِهِ ، ثُمَّ أَسَرَّ إِلَيْهَا حَدِيثًا فَبَكَتْ ، فَقُلْتُ لَهَا : لِمَ تَبْكِينَ ؟ ثُمَّ أَسَرَّ إِلَيْهَا حَدِيثًا فَضَحِكَتْ ، فَقُلْتُ : مَا رَأَيْتُ كَاليَوْمِ فَرَحًا أَقْرَبَ مِنْ حُزْنٍ ، فَسَأَلْتُهَا عَمَّا قَالَ : فَقَالَتْ : مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، حَتَّى قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَسَأَلْتُهَا فَقَالَتْ : أَسَرَّ إِلَيَّ : إِنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُنِي القُرْآنَ كُلَّ سَنَةٍ مَرَّةً ، وَإِنَّهُ عَارَضَنِي العَامَ مَرَّتَيْنِ ، وَلاَ أُرَاهُ إِلَّا حَضَرَ أَجَلِي ، وَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِ بَيْتِي لَحَاقًا بِي . فَبَكَيْتُ ، فَقَالَ : أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ أَهْلِ الجَنَّةِ ، أَوْ نِسَاءِ المُؤْمِنِينَ فَضَحِكْتُ لِذَلِكَ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
3457 حدثنا أبو نعيم ، حدثنا زكرياء ، عن فراس ، عن عامر الشعبي ، عن مسروق ، عن عائشة رضي الله عنها ، قالت : أقبلت فاطمة تمشي كأن مشيتها مشي النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم : مرحبا بابنتي ثم أجلسها عن يمينه ، أو عن شماله ، ثم أسر إليها حديثا فبكت ، فقلت لها : لم تبكين ؟ ثم أسر إليها حديثا فضحكت ، فقلت : ما رأيت كاليوم فرحا أقرب من حزن ، فسألتها عما قال : فقالت : ما كنت لأفشي سر رسول الله صلى الله عليه وسلم ، حتى قبض النبي صلى الله عليه وسلم ، فسألتها فقالت : أسر إلي : إن جبريل كان يعارضني القرآن كل سنة مرة ، وإنه عارضني العام مرتين ، ولا أراه إلا حضر أجلي ، وإنك أول أهل بيتي لحاقا بي . فبكيت ، فقال : أما ترضين أن تكوني سيدة نساء أهل الجنة ، أو نساء المؤمنين فضحكت لذلك
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

'Â'icha () dit: «Fâtima arriva en marchant; sa marche ressemblait à celle du Prophète (), et celuici lui dit: Bienvenue ma fille! Il la fit ensuite asseoir à sa droite, ou à sa gauche, et lui raconta en secret quelque chose qui la fit pleurer... Je lui dis: Pourquoi pleurestu? ... Il lui fit encore une confidence mais cette fois la chose la laissa souriante... Alors je [me] dis: Je n'ai jamais vu une joie aussi proche d'un chagrin que la joie et le chagrin d'aujourd'hui! Je l'interrogeai sur les propos du Prophète () mais elle me dit: Je ne peux divulguer le secret du Messager d'Allah (). J'attendais alors la mort du Prophète () et je l'interrogeai de nouveau.

":"ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا ، ان سے فراس نے ، ان سے عامر نے ، ان سے مسروق نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں ، ان کی چال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے بڑی مشابہت تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بیٹی آو مرحبا ! اس کے بعد آپ نے انہیں اپنی دائیں طرف یا بائیں طرف بٹھایا ، پھر ان کے کان میں آپ نے چپکے سے کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں ، میں نے ان سے کہا کہ آپ روتی کیوں ہو ؟ پھر دوبارہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ ہنس دیں ۔ میں نے ان سے کہا آج غم کے فوراً بعد ہی خوشی کی جو کیفیت میں نے آپ کے چہرے پر دیکھی وہ پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا ؟ انہوں نے کہا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں میں آپ کے راز کو کسی پر نہیں کھول سکتی ۔ چنانچہ میں نے آپ کی وفات کے بعد پوچھا ۔ تو انہوں نے بتایا کہ آپ نے میرے کان میں کہا تھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ہر سال قرآن مجید کا ایک دور کیا کرتے تھے ، لیکن اس سال انہوں نے دو مرتبہ دور کیا ہے ، مجھے یقین ہے کہ اب میری موت قریب ہے اور میرے گھرانے میں سب سے پہلے مجھ سے آ ملنے والی تم ہو گی ۔ میں ( آپ کی اس خبر پر ) رونے لگی تو آپ نے فرمایا کہ تم اس پر راضی نہیں کہ جنت کی عورتوں کی سردار بنو گی یا ( آپ نے فرمایا کہ ) مومنہ عورتوں کی ، تو اس پر میں ہنسی تھی ۔

'Â'icha () dit: «Fâtima arriva en marchant; sa marche ressemblait à celle du Prophète (), et celuici lui dit: Bienvenue ma fille! Il la fit ensuite asseoir à sa droite, ou à sa gauche, et lui raconta en secret quelque chose qui la fit pleurer... Je lui dis: Pourquoi pleurestu? ... Il lui fit encore une confidence mais cette fois la chose la laissa souriante... Alors je [me] dis: Je n'ai jamais vu une joie aussi proche d'un chagrin que la joie et le chagrin d'aujourd'hui! Je l'interrogeai sur les propos du Prophète () mais elle me dit: Je ne peux divulguer le secret du Messager d'Allah (). J'attendais alors la mort du Prophète () et je l'interrogeai de nouveau.