هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6975 حَدَّثَنَا الأُوَيْسِيُّ عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ ، وَابْنُ المُسَيِّبِ ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، حِينَ قَالَ لَهَا أَهْلُ الإِفْكِ مَا قَالُوا ، قَالَتْ : وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ، وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ، حِينَ اسْتَلْبَثَ الوَحْيُ ، يَسْأَلُهُمَا وَهُوَ يَسْتَشِيرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ ، فَأَمَّا أُسَامَةُ : فَأَشَارَ بِالَّذِي يَعْلَمُ مِنْ بَرَاءَةِ أَهْلِهِ ، وَأَمَّا عَلِيٌّ فَقَالَ : لَمْ يُضَيِّقِ اللَّهُ عَلَيْكَ ، وَالنِّسَاءُ سِوَاهَا كَثِيرٌ ، وَسَلِ الجَارِيَةَ تَصْدُقْكَ . فَقَالَ : هَلْ رَأَيْتِ مِنْ شَيْءٍ يَرِيبُكِ ؟ ، قَالَتْ : مَا رَأَيْتُ أَمْرًا أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ ، تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا ، فَتَأْتِي الدَّاجِنُ فَتَأْكُلُهُ ، فَقَامَ عَلَى المِنْبَرِ فَقَالَ : يَا مَعْشَرَ المُسْلِمِينَ ، مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِي ، وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا فَذَكَرَ بَرَاءَةَ عَائِشَةَ ، وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6975 حدثنا الأويسي عبد العزيز بن عبد الله ، حدثنا إبراهيم بن سعد ، عن صالح ، عن ابن شهاب ، حدثني عروة ، وابن المسيب ، وعلقمة بن وقاص ، وعبيد الله ، عن عائشة رضي الله عنها ، حين قال لها أهل الإفك ما قالوا ، قالت : ودعا رسول الله صلى الله عليه وسلم علي بن أبي طالب ، وأسامة بن زيد رضي الله عنهم ، حين استلبث الوحي ، يسألهما وهو يستشيرهما في فراق أهله ، فأما أسامة : فأشار بالذي يعلم من براءة أهله ، وأما علي فقال : لم يضيق الله عليك ، والنساء سواها كثير ، وسل الجارية تصدقك . فقال : هل رأيت من شيء يريبك ؟ ، قالت : ما رأيت أمرا أكثر من أنها جارية حديثة السن ، تنام عن عجين أهلها ، فتأتي الداجن فتأكله ، فقام على المنبر فقال : يا معشر المسلمين ، من يعذرني من رجل بلغني أذاه في أهلي ، والله ما علمت على أهلي إلا خيرا فذكر براءة عائشة ، وقال أبو أسامة ، عن هشام
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated `Aisha:

After the slanderers had given a forged statement against her, Allah's Messenger (ﷺ) called `Ali bin Abi Talib and Usama bin Zaid when the Divine Inspiration was delayed. He wanted to ask them and consult them about the question of divorcing me. Usama gave his evidence that was based on what he knew about my innocence, but `Ali said, Allah has not put restrictions on you and there are many women other than her. Furthermore you may ask the slave girl who will tell you the truth. So the Prophet (ﷺ) asked Barira (my salve girl), Have you seen anything that may arouse your suspicion? She replied, I have not seen anything more than that she is a little girl who sleeps, leaving the dough of her family (unguarded) that the domestic goats come and eat it. Then the Prophet (ﷺ) stood on the pulpit and said, O Muslims! Who will help me against the man who has harmed me by slandering my wife? By Allah, I know nothing about my family except good. The narrator added: Then the Prophet (ﷺ) mentioned the innocence of `Aisha. (See Hadith No. 274, Vol. 6)

":"ہم سے عبد العزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے ‘ ان سے صالح بن کیسان نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ کہا کہمجھ سے عروہ بن مسیب اور علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب تہمت لگا نے والوں نے ان پر تہمت لگائی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب ‘ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بلایا کیونکہ اس معاملہ میں وحی اس وقت تک نہیں آئی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہل خانہ کو جدا کرنے کے سلسلہ میں ان سے مشورہ لینا چاہتے تھے تو اسامہ رضی اللہ عنہ نے وہی مشورہ دیا جو انہیں معلوم تھا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اہل خانہ کی برات کا لیکن علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی پابندی تو عائد نہیں کی ہے اور اس کے سوا اور بہت سی عورتیں ہیں ‘ باندی سے آپ دریافت فر ما لیں ‘ وہ آپ سے صحیح بات بتادے گی ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے شبہ ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں ‘ آٹا گوندھ کر بھی سو جاتی ہیں اور پڑوس کی بکری آ کر اسے کھا جاتی ہے ( یعنی کم عمری کی وجہ سے مزاج میں بے پروائی ہے ) اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا ‘ اے مسلمانو ! میرے معاملے میں اس سے کون نمٹے گا جس کی اذیتیں اب میرے اہل خانہ تک پہنچ گئی ہیں ۔ اللہ کی قسم ! میں نے ان کے بارے میں بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانا ہے ۔ پھر آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاک دامنی کاقصہ بیان کیا اور ابواسامہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا ۔